تجلیات جذب |
ہم نوٹ : |
|
جگرمراد آبادی کا،اتناپیتےتھےکہ دو آدمی اُٹھا کراسٹیج پر لاتے تھے شعر پڑھنے کے لیے۔ میرصاحب عشرت جمیل نے ان کو دیکھا ہے ۔ دو آدمیوں نے اُٹھایا اور تخت پر لائے اور پھر وہ شعر پڑھتے تھے، مگر ظالم کی آواز ایسی تھی کہ سارا مجمع ان کے با لکل قابو میں ہوتا تھا، لیکن چوں کہ ولی اﷲ ہونے والے تھے تو گناہ کی حالت میں بھی ان کے دل میں ندامت رہتی تھی، علامت جذب کی ایک یہ بھی ہے ۔ سُورج تو نکلتا ہے ایک گھنٹے کے بعد مگر آسمان پہلے ہی سے لال ہوجاتا ہے، جس کو خدا جذب کرنے والا ہوتا ہے گناہوں کی حالت میں بھی اس کے قلب میں ندامت رہتی ہے کہ میں کیاکمینہ پن اور بے غیرتی اور بے شرمی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ اس کی یہ ندامت ایک دن رنگ لاتی ہے۔ لہٰذا جگر صاحب نے اپنے دیوان میں یہ شعر لکھا ؎پینے کو تو بے حساب پی لی اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا یہ دھڑکن جو ہوئی خوفِ خداکی یہ علامت جذب کا نقطۂ آغاز ہے ۔ یہ اﷲ کے خوف سے دل کا دھڑکنا جذب کا نقطۂ آغاز ہے۔ خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ سے پوچھا کہ آپ ڈپٹی کلکٹر ہیں مگر گول ٹوپی، لمبا کرتا، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ، ہاتھ میں تسبیح یہ بزرگی کہاں سے آپ کو ملی ؟ فرمایا تھانہ بھون میں حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا صدقہ ہے ؎تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا کہا کیا مجھ جیسا شرابی بھی وہاں جا سکتا ہے؟ کہا با لکل۔ کہا لیکن میں تو شراب وہاں بھی پیوں گا۔ کیا مولانا خانقاہ میں شراب پینے دیں گے؟ حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا میں پوچھ کر بتاؤں گا۔ تھانہ بھون گئے حکیم الامت سے عرض کیا کہ جگر صاحب آنا چاہتے ہیں آل انڈیا شاعر ہیں لیکن کہتے ہیں کہ خانقاہ میں بھی آکر شراب پیوں گا مگرآنا چاہتا ہوں ، بزرگوں کی صحبت میں رہنا چاہتا ہوں ۔حضرت نے فرمایا کہ آپ نے کیا جواب دیا؟ کہا میں نے جواب دیا کہ خانقاہ میں تو مشکل ہے۔ فرمایا خواجہ صاحب آپ نے صحیح جواب نہیں دیا، اب جا کر ان سے اشرف علی کا