بھوک سے مر رہے ہىں آپ بارش کىلئے دعا کرىں۔ چنانچہ ابوطالب اپنے ساتھ اىک بچے کو لے کر روانہ ہوئے۔ مطلع صاف اور سورج روشن تھا۔ ابوطالب نے بچے کا ہاتھ تھاما اور اس کى پشت خانہ کعبہ سے ملادى اور اپنى انگلىوں سے بچہ کو تھام لىا۔ اچانک افق سے بادل اُٹھے اور برسنے لگے ۔ اتنى بارش ہوئى کہ وادى اور پرنالے بھر گئے (اور وہ بچے حضور علىہ السلام تھے) (تارىخ ابن عساکر)
جب ابوطالب کى وفات کا وقت قرىب آىا تو انہوں نے عبد المطلب کے بىٹوں کو بلاىا اور کہا تم لوگ ہمىشہ خىر وبرکت مىں رہو گے جب تک حضور کى بات سنو گے اور ان کے حکموں کى پىروى کرو گے۔
جب ابوطالب وفات پاگئے تو اىک بدبخت قرىشى نبى کرىم کے سامنے آىا اور آپ پر مٹى اچھالى تو آپ علىہ السلام کى صاحبزادى حضرت فاطمہ رضى اللہ عنہا آئى وہ مٹى صاف کرتى اور روتى جاتى تھى تو آپ نے ان سے فرماىا کہ بىٹى نہ رو کىونکہ اللہ تعالىٰ تمہارے باپ کى موافقت کرنے والا ہے (ابن عساکر)
جب قرىش نے خانہ کعبہ کى تعمىر کى تو وہ نواحى پہاڑوں سے پتھر لاتے تھے حضور علىہ السلام بھى تعمىر مىں مصروف تھے کہ اچانک آپ کا ستر کھل گىا تو آپ کو غىب سے آواز آئى اے محمد! ستر پوشى کىجئے۔ ىہ پہلى آواز تھى جو آپ کو آئى اور اس سے پہلے ىا بعد مىں کبھى بھى آپ کا ستر نہ دىکھا گىا (حاکم)
حضرت عمار بن ىاسر سے رواىت ہے کہ صحابہ کرام نے آپ سے