ہوتا، اور یہ صورتِ حال اس وقت تک باقی رہے گی جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا امام اپنی زندگی وجدوجہد کا قائد نہ بنالیا جائے، اور عرب اسلام کی دعوت اور پیغام لے کر پھر اس طرح نہ اٹھیں جیسے عہد اول میں اٹھے تھآ، اور اس ستم رسیدہ دنیا کو یورپ کے ان ستم گروں کے پنجہ سے آزاد نہ کریں جو صالح تمدن اور حقیقی انسانیت کا کام تمام کردینا چاہتے ہیں ، اور پھر عالم عربی اس معاملہ میں صف آرا ہوکر عالم انسانیت کو انتشار؛ بلکہ احتضار سے بچا نہ لے اور اس کو توحید ووحدت، امن وسلامتی، طاعت وایمان کی لائن پر نہ ڈالے، یہ عالم عربی کا فریضہ ہے جس کے بارے میں اللہ کے یہاں سوال ہوگا، دیکھنا ہے کہ عرب اس کا کیا جواب دے گا‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۷؍۱۵۲-۱۵۳)
شاہ اسماعیل شہیدؒ کے تذکرہ میں مولانا علی میاں ؒ نے تحریر فرمایا ہے:
’’۲۴؍ذی قعدہ ۱۹۴۶ھ سے لے کر اس دن تک شاید کوئی دن طلوع ہوا ہو جس کی صبح کو اس شہید اسلام کی، جس کی اور فضیلتیں برطرف اس کی شہادت ملم اور شہداء کی مغفرت مسلم، تکفیر وتضلیل میں کوئی فتویٰ نہ نکلا ہو، لعنت وسب وشتم کا کوئی صیغہ نہ استعمال کیا گیا ہو، علماء کی مجلس میں اس پر اتنی لعنت کی گئی جتنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر بنی امیہ کے دربار میں نہیں کی گئی، فقہ وفتویٰ کی کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جو اس کے کفر کے ثبوت میں نہ پیش کی گئی ہو، وہ ابوجہل وابولہب سے زیادہ دشمن اسلام، فرعون وہامان سے زیادہ مستحق نار، کفر وضلالت کا بانی، بے ادبوں ، گستاخوں کا پیشوا، شیخ نجدی کا مقلد وشاگرد بتایا گیا، اور یہ ان لوگوں نے کہا جن کے جسم نازک میں آج تک اللہ کے لئے ایک پھانس بھی نہیں چبھی، جن کے پیروں میں اللہ کے راستہ میں کبھی کوئی کانٹا نہیں گڑا، جن کو خون چھوڑکر کہ اس کا ان کے یہاں کیا ذکر اسلام کی صحیح خدمت میں پسینہ کا ایک قطرہ بہانے کی سعادت بھی حاصل نہیں ہوئی، اور یہ ان لوگوں نے کہا جن کی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عزت وعصمت بچانے کے لئے اس نے اپنا سر کٹایا، تو کیا اس کا یہی گناہ تھا اور کیا دنیا میں احسان فراموشی کی اس سے بڑھ کر نظیر مل سکتی ہے؟ جس وقت پنجاب میں مسلمانوں کا دین وایمان، جان ومال، عزت وآبرو محفوظ نہ تھی، سکھوں کے گھروں میں مسلمان عورتیں تھیں ، مساجد کی بے حرمتی ہورہی تھی اور ان مین