چند گذارشات
حضرت مولانا علی میاں ؒ جیسے اصحابِ فضل وکمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ، جتنی جامعیت اور ہمہ جہتی اللہ نے انہیں عطا فرمائی تھی وہ بہت کم افراد کے حصہ میں آتی ہے، مولانا کی تصنیفات، افکار، طریقۂ کار، اسلوب اور انداز سے جس قدر استفادہ کیا جانا چاہئے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ نہیں ہوسکا:
تو نظیری ز فلک آمدہ بوری چوں مسیح
باز پس رفتی و کس قدر تو نشناخت دریغ
چند گذارشات پیش ہیں ، جن پر عمل مولانا سے استفادہ کو عام اور تام بناسکتا ہے:
(۱) عام لائبریریوں میں مولانا کی تصنیفات وخطبات کا مستقل گوشہ (Chair) قائم کیا جائے؛ تاکہ بآسانی فائدہ اٹھایا جاسکے، ہندوپاک کی بعض لائبریریوں میں اس طرح کے گوشے بنائے گئے ہیں ، ضرورت اس کام کو زیادہ وسیع اور منظم کرنے کی ہے۔
(۲) مدراس اور جامعات میں مولانا کی اہم تصنیفات یا ان کے منتخب حصوں کو باضابطہ داخل درس کیا جائے؛ تاکہ نئی نسل اپنے مذہب سے پوری طرح واقف اور اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ اور باشعور ہوجائے۔
(۳) نئی نسل کو خاص طور سے حضرت مولانا کی دعوت، فکر وعمل، اصلاحی کارناموں ، عظیم خدمات، دینی حمیت وغیرت، اسلام کی تڑپ اور لگن اور زہد واستغناء سے واقف اور باخبر کیا جائے اور انہیں خطوط ونقوش کو حرزِ جاں بنانے کی تلقین کی جائے۔
(۴) قدیم صالح اور جدید نافع کے جس امتزاج کا مولانا حسین شاہکار تھے اور جس