مستقل بلاتوقف پڑھواکر سنی، ۱۹۵۸ء کے اوائل میں حضرت رائے پوریؒ نے مولانا کو قادیانیت کے سلسلہ میں عربی میں کتاب مرتب کرنے کا حکم دیا، یہ کتاب مولانا نے بڑی محنت سے لکھی جو ’’القادیانی والقادیانیۃ‘‘ کے نام سے طبع ہوئی ،اور جو اپنے اسلوب کی ممتاز مثبت خصوصیات کی وجہ سے اس موضوع کی کتابوں میں سب سے بلند مقام کی حامل ہے، ۱۹۵۹ء میں اسی کتاب کے اردو ترجمہ کا تقاضا بھی حضرت کی طرف سے ہوا، جسے مولانا نے اضافہ کے ساتھ مکمل کیا، اپنے مرشد کی سوانح بھی مولانا نے ’’سوانح حضرت رائے پوریؒ‘‘ ساڑھے تین سو صفحات میں مرتب فرمائی اور اگست ۱۹۶۲ء میں حضرت رائے پوری کے انتقال تک یہ تعلق قائم رہا۔
r حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ:
حضرت شیخ سے مولانا کا ربط وتعلق ۱۹۴۰ء سے شروع ہوا، اور آخر تک باقی رہا، مراسلت کا سلسلہ بھی شروع سے رہا اور حضرت شیخ کے سیکڑوں خطوط مولانا کے پاس آئے، حضرت شیخ کی جامعیت، بے انتہا محبت اور علمی ذوق وشغف مولانا کو قریب کرتے گئے، حضرت شیخ کو بھی مولانا پر اس درجہ اعتماد وتعلق تھا کہ اپنی تمام عربی تصنیفات پر مولانا سے مقدمہ لکھوایا اور ایک مکتوب میں اپنا تعلق یوں ظاہر کیا کہ:
’’دعاؤں میں نہ مکہ میں دریغ ہوا نہ مدینہ پاک میں ، اور یہ بھی یاد نہیں کہ کسی دن آپ کے لئے صلاۃ وسلام میں تخلف ہوا ہو، اس سے تو آپ کو بھی انکار نہیں ہوگا کہ دل بستگی جتنی آپ سے ہے اتنی کسی سے بھی نہیں رہی‘‘۔ (کاروانِ زندگی ۱؍۴۴۲)
شیخ کی شفقت کے متعدد واقعات مولانا نے اپنی کتاب ’’شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب‘‘ میں نقل کئے ہیں ، حضرت مولانا کے بارے میں شیخ کے یہ الفاظ کتنے گہرے اعتماد وتعلق کا ثبوت دیتے ہیں کہ: