متأثر کرتے رہے، اور علم وادب کی دنیا میں جن کا سلسلہ چلتا رہا، وہ ایسی شخصیتیں نظر آتی ہیں جن میں زہد تھا، دنیا سے بے رغبتی تھی، قناعت تھی، جنہوں نے نفس کی خواہشات پر قابو حاصل کرلیا تھا، مادی دولت اور اربابِ دولت وثروت واصحابِ جاہ وحشم کی کشش ان کی نگاہوں میں ختم ہوگئی تھی، غالباً اس کا راز یہ ہے کہ دنیا سے بے نیازی، قناعت اور زہد انسان کے اندر باطنی قوت اور عقیدہ وکردار کی اہمیت پیدا کردیتا ہے، مادی دولت میں ڈوبے ہوئیانسانوں ، معدہ کے گرفتار اور شہوت کے شکار افراد کی قدر وقیمت ان کی نگاہوں میں گرجاتی ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت کا منصب ہے اور رسول اللہ سے کہا گیا تھا:
ولا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجاً منہم زہرۃ الحیاۃ الدنیا لنفتنہم فیہ ورزق ربک خیر وابقیٰ۔
ترجمہ: اور ہرگز آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھئے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے گروہوں کو متمتع کررکھا ہے، ان کی آزمائش کے لئے کہ وہ محض دنیوی زندگی کی رونق ہے، اور آپ کے پروردگار کا عطیہ کہیں بہتر اور دیرپا ہے۔
جن اشخاص کو اللہ تعالیٰ اس عظیم کام کے لئے منتخب کرتا ہے یا جو لوگ اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کرتے ہیں اور اس اہم منصب کی تمنا کرتے ہیں ، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا دستور یہی ہے اور اللہ کا دستور بدلا نہیں کرتا۔
(اسلامی بیداری کی لہر پر ایک نظر، بقلم: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ۳۴-تا-۳۷)
(۵) جرأت وشجاعت اور قربانی کا جذبہ وشوق
اسمی بیداری کے لئے پانچواں لازمی عنصر یہ ہے کہ دعوت کے ساتھ جرأت وشجاعت کی روح اور صبر واستقلال اور قربانی کا جذبہ وشوق بھی وابستہ ہو، اگر حالات کا تقاضا ہو تو خطرات میں کود پڑنے کی ہمت اور طاقت بھی رہنی چاہئے۔ (اسلامی بیداری کی لہر پر ایک نظر، بقلم: