محترم علماء، معاصرین اور احباب
r حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڈھیؒ:
۱۹۴۱ء کے بعد اپنے کسی تبلیغی سفر کے موقع پر حضرت مولانا علی میاں ؒ کا پرتاب گڈھ جانا ہوا، اس سفر میں پہلی بار حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ سے ملاقات ہوئی، ان کا وعظ بھی سنا اور جذبۂ اصلاح واخلاص سے بے حد متأثر ہوئے، اس کے بعد کوئی بار ملاقاتیں ہوئیں ، پہر جب حضرت الٰہ آباد منتقل ہوگئے تو مولانا نے وہاں کا سفر شروع کیا، مولانا کے بقول ان کا الٰہ آباد کا سفر صرف حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور استفادہ کی غرض سے ہوتا تھا، حضرت اس دوران خود کئی بار لکھنؤ اور رائے بریلی تشریف لائے اور ندوۃ العلماء میں کئی روز قیام فرمایا۔
حضرت کے انتقال سے کچھ ہی دنوں قبل مولانا اپنے رفقاء کے ساتھ الٰہ آپاد ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، حضرت اپنی علالت اور سخت کمزوری کی وجہ سے صاحب فراش تھے؛ لیکن مولانا سے ملاقات کے لئے چارپائی سے بصد اصرار اٹھے اور فرش پر کافی دیر تک بیٹھے رہے اور بے انتہاء شفقت ومحبت کا معاملہ فرمایا، مولانا حضرت کی بے انتہا سادگی، تواضع، شفقت بزرگانہ اور بلند پایہ عارفانہ کلام کے دل سے قائل تھے، حضرت کے مجموعۂ اشعار ’’عرفانِ محبت‘‘ پر مولانا کا مقدمہ پڑھنے کی چیز ہے، مولانا سے حضرت کے غایت تعلق وشفقت کا اندازہ ان کے اس جملہ سے ہوتا ہے:
’’اور چوں کہ حضرت مولانا علی میاں صاحب اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ، اس لئے اللہ نے ان کو علم کے پردے میں چھپا رکھا ہے، اگر وہ اپنے آپ کو ظاہر کردیں تو دوسرے پیروں کو مرید نہ ملیں ‘‘۔ (حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اکابر ومشاہیر امت کی نظر میں ۲۲۶)
r حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ:
مفتی صاحب سے مولانا کا براہِ راست تعلق ۱۹۴۰ء کے بعد سے شروع ہوا، حضرت