تحریری مشق پر مہمیز کا کام کیا، اور اس سے قلم میں روانی وجوانی پیدا ہوئی، اس دوران متعدد عربی رسائل اور تصنیفات کے مطالعہ کا شغف بھی رہا۔
پھر ۱۹۳۴ء میں جب مولانا ندوۃ العلماء کے استاذ منتخب ہوئے، تو عربی ادب کی بعض کتابیں آپ سے متعلق رہیں ، جن میں دیوانِ حماسہ، القراء ۃ الرشیدۃ، حکایات الاطفال وغیرہ ہیں ، اس وقت ندوہ کی پوری فضا پر عربی زبان وادب، انشاء وخطابت چھائی ہوئی تھی۔ مشہور ادیب مولانا مسعود عالم ندوی کی رفاقت میں مولانا کی ادبی وعلمی سرگرمیاں تیز تر ہوتی گئیں ، عربی زبان کی تعلیم میں عرب صاحب کی طرح گھول کر پلادینے اور ہر طرح سے مشق کرانے کا اہتمام مولانا نے خوب خوب کیا، اس سلسلہ میں ہلالی صاحب کے برادرِ خورد شیخ محمد عربیؒ کا تعاون بھی حاصل رہا، عرب ادباء میں مولانا کو امیر شکیب ارسلان اپنی تحریروں کی اسلامیت اور پختگی کی وجہ سے پسند آئے؛ لیکن اس سے بھی زیادہ مولانا علی میاں ؒ سید عبدالرحمن کواکبی کی تخیلی کتاب ’’ام القریٰ‘‘ سے متأثر ہوئے، جس میں امت اسلامیہ کے حقیقی امراض کی تشخیص اور علاج کی تجویز بڑی بالغ نظری اور باریک بینی سے کی گئی ہے۔
اس کے بعد مولانا کی ادبی تحریری وتقریری سرگرمیاں تاآخر باقی رہیں ، جن کی کچھ تفصیلات آرہی ہیں ۔
(۲) عربی ادب کے نصاب کی ترتیب اور دیگر ادبی سرگرمیاں
ندوۃ العلماء کی تحریک کا ایک اہم مقصد ایسا نصاب تیار کرنا تھا، جس کے ذریعہ عربی زبان کو ایک زندہ اور جیتی جاگتی زبان کی طرح پڑھا جاسکے اور براہِ راست عربوں میں دعوت وتبلیغ کا کام کیا جاسکے، اس کی مکمل کوشش پورے طور پر منظم انداز میں سب سے پہلے ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحبؒ کے دورِ نظامت میں شروع ہوئی، ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے مصری وزارتِ تعلیم کی چند عربی ریڈروں کو داخل نصاب کرنا چاہا، چناں چہ مجلس انتظامی کی تائید سے