وحدتِ ادیان اور اس جیسے بہت سے خطرات سے بچتے ہوئے مولانا نہایت دانش مندی، دور اندیشی اور حکمت واحتیاط کے ساتھ تقریباً نصف صدی تک سچی حب الوطنی، احترامِ انسانیت اور بقائے باہم (Coexistence)کے حدود میں رہتے ہوئے انسانیت کا پیغام دیتے رہے، جس کی تفصیلات ان کی خود نوشت سوانح حیات کی تمام جلدوں میں جگہ جگہ ملتی ہیں ، مولانا کی باتوں اور تجاویز کی پذیرائی بھی خوب ہوئی، جو ان کے اخلاص اور سوزِ اندرون کی دلیل تھی۔
افسوس ہے کہ مولانا کے بعد اس سمت میں بھی ابھی کوئی پیش قدمی نہیں ہوپارہی ہے، حالات کا مطالبہ اور ضرورت ہے کہ مولانا کے مشن کو آگے بڑھایا جائے اور یہ کاروانِ محبت پھر سے رختِ سفر باندھ کر نکل پڑے اور کوئی سنگ گراں اس کی راہ میں حائل بھی ہو تو اسے ٹھکراتا ہوا نکل جائے اور اس سفر میں اُسے کہیں بھی پڑاؤ ڈالنے کا تصور نہ ہو، یہ پیغام اپنی قوت وتاثیر سے ناسازگار حالات کو سازگار بنانے میں بڑا معاون ثابت ہوسکتا ہے:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں
دینی تعلیمی کونسل
۱۹۴۷ء میں ہندوستان کی آزادی کے بعد ہی سے ہندو احیائیت (Revivalism)نے اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کردی تھیں ، بیسک ریڈروں مآں ہندو دیومالا (Mythology)کی باتیں اور مشرکانہ اسباق وکہانیاں بڑھتی جارہی تھیں ، مسئلہ پیچیدہ ہوتا جارہا تھا، نصابِ تعلیم اور تاریخ میں تحریف وتلبیس کی یہ دشمنانہ سرگرمیاں مسلمانوں کی نئی نسل کو عقیدۂ توحید سے ناآشنا اور کفریہ عقائد سے متأثر کرنے کے لئے کمربستہ تھیں ، اس سلسلہ میں ایک کام تو یہ کرنے کا تھا کہ حکومت سے تعلیمی پالیسی میں دیانت