مجلس شوریٰ کے بھی شروع سے ممبر رہے، یہ مجلس ۱۹۹۷ء تک باقی رہی، پھر نامعلوم اسباب کی وجہ سے ختم کردی گئی، اس کے جلسوں میں مولانا مستقل شریک ہوتے رہے، جامعہ اسلامیہ میں مولانا کو تدریس کی بھی دعوت دی گئی، مگر مولانا نے اس سے معذرت کرلی (اس سے قبل ۱۹۵۶ء میں جامعہ دمشق کے ’’کلیۃ الشریعۃ‘‘ کے قیام کے بعد بھی ڈاکٹر مصطفی سباعی عمید الکلیۃ نے تدریس کی دعوت دی تھی، اس وقت بھی مولانا نے عذر کرلیا تھا؛ البتہ استاذ زائر کی حیثیت سے متعدد محاضرات دئے تھے جو تجدید ومجددین سے متعلق تھے اور یہی ’’رجال الفکر والدعوۃ‘‘ (تاریخ دعوت وعزیمت) کی تصنیف کا پیش خیمہ ثابت ہوئے) البتہ ۱۹۶۳ء میں مولانا نے دو ماہ کے لئے استاذ زائر کی حیثیت سے لکچر دینا شروع کیا جس کا عنوان ’’النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن‘‘ (منصب نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین) تھا، کل آٹھ لکچرس ہوئے جو بہت مقبول ہوئے۔
تحریک اخوان ا لمسلمین
تحریک اخوان اور اس کے بانی شیخ حسن البناء شہید اور ان کے طریق کار اور طریقۂ فکر سے مولانا بہت متأثر تھے، اور تحریک اخوان کی سرگرمیوں اور نظریات نیز اس کے رد عمل میں مصر کی جمال عبدالناصر کی حکومت کے ظالمانہ موقف سے بخوبی آشنا اور واقف تھے، انہوں نے اپنی ایمانی فراست وبصیرت سے یہ سمجھ لیا تھا کہ ناصری حکومت کا موقف جابرانہ ہے اور یہ ساری کارروائیاں مغرب کے اشارے پر ہیں ، مغرب پرستی نے عقل ودانش اور شعور وخرد سے اُسے بیگانہ کردیا ہے، جب کہ اخوان نے اسلام کے نظام کو واپس لانے کے لئے جو کوششیں کیں اور جو قربانیاں دیں انھیں ہرگز بھلایا نہیں جاسکتا۔
شیخ حسن البناء شہید سے تو مولانا کی ملاقات نہ ہوسکی، ان کی شہادت ۱۹۴۹ء ہی میں ہوچکی تھی، ۱۹۵۱ء میں مولانا نے مصر کا دورہ کیا اس وقت شیخ حسن البناء کے تمام قدیم رفقاء