کے غایت تعلق کی بات تھی، پٹنہ میں ایک کانفرنس کے موقع پر ’’خدابخش لائبریری‘‘ کی زیارت مولانا نے نواب صاحب کے ساتھ کی، اِسی دوران عصر کا وقت آیا تو نواب صاحب نے مختلف اہل فضل وکمال کی موجودگی میں مولانا ہی کو امامت کے لئے فرمایا، اُن کا تعلق اس ناطے سے بھی مولانا سے گہرا تھا کہ وہ مولانا کے والد ماجد مولانا سید عبدالحئ رحمہ اللہ کے رفیق اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کی تاسیس میں شریک تھے، جب بھی مولانا کو دیکھتے تو سینہ سے لگالیتے، اور اولاد جیسا سلوک کرتے، مجلہ ’’الندوہ‘‘ کی ادارت کے زمانہ میں مولانا نے ہندوستان کے اہل علم وقلم حضرات سے ان کی محسن کتابوں کے بارے میں مضامین کا مطالبہ شروع کیا تھا، اس موقع پر مولانا نے سب سے پہلے نواب صاحب سے اس سلسلہ کے افتتاح کی فرمائش کی، جو نواب صاحب نے بخوشی قبول کی اور ایک وقع مقالہ تحریر فرمایا جو طبع ہوا۔
r امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ:
مولانا آزاد کی ذکاوت وذہانت، غیر معمولی قوتِ اخذ، جوشِ خطابت وکتابت، حافظہ وخود اعتمادی اور خود داری کا شہرہ حضرت مولانا علی میاں ؒ نے اپنے بڑوں خصوصاً علامہ سید سلیمان ندویؒ سے بارہا سنا تھا، پہلی بار انہیں لکھنؤ کے کسی سیاسی جلسہ میں دیکھا اور ان کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ ۱۹۳۴ء میں مولانا نے ندوۃ العلماء میں تدریس کے دوران مولانا آزاد کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ بڑے ذوق سے پڑھی اور اس سے خوب فائدہ اٹھایا، اس کے کچھ عرصہ بعد مولانا آزاد لکھنؤ آئے اور وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر مقیم ہوئے، مولانا ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، اپنا تعارف کرایا، تو انہوں نے پہچان لیا، ’’سیرتِ سید احمد شہید‘‘ اس وقت زیر ترتیب تھی، مولانا نے مقدمہ لکھنے کی درخواست کی جو مولانا آزاد نے منظور کی اور وعدہ کرلیا۔ (مقدمہ تو مولانا آزاد مصروفیت کی وجہ سے نہ لکھ سکے اور کتاب علامہ سید سلیمان ندویؒ کے وقیع مقدمہ کے ساتھ ۱۹۳۹ء میں طبع ہوکر آئی) اسی دوران مولانا نے ان