القرآن) دو ہفتے مغرب اقصیٰ مراکش میں (اسبوعان فی المغرب الاقصیٰ) حجاز مقدس اور جزیرۃ العرب امیدوں اور اندیشوں کے درمیان (کیف ینظر المسلمون الی الحجاز وجزیرۃ العرب) وغیرہ بہت مؤثر ترجمے ثابت ہوئے ہیں ۔
مولانا محمد الحسنیؒ بھی بہت کامیاب مترجم تھے، اور انہوں نے کافی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے؛ لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ترجمے (جن کی تعداد ایک دو سے زائد نہیں ) بعض حضرات نے بڑی رواداری، سرسری اور خشک انداز میں کئے ہیں ، اور ان میں اصل کتاب کا جوش اور ادبیت نہیں آسکی ہے اور انہیں دیکھ کر یہ محسوس فوراً ہوجاتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے، ان میں سرفہرست مولانا کی کتاب ’’مذکرات سائح فی الشرق العربی‘‘ کا اردو ترجمہ ’’شرق اوسط کی ڈائری‘‘ ہے، ایسے ترجموں کو مزید مؤثر اور دلچسپ بنانے کے لئے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
حضرت مولاناؒکے عربی واردو اسلوب کے نمونے
ہم یہاں مولانا کے عربی اور اردو اسلوب کے دو نمونے پیش کررہے ہیں ، ان سے مولانا کے زور قلم اور تاثیر وبلاغت کا کچھ اندازہ ہوگا۔
مولانا نے ۲۰؍ربیع الاول ۱۳۷۰ھ مطابق ۳۰؍دسمبر ۱۹۵۰ء میں ایک پیغام عربوں کے نام تحریر فرمایا، جس کا مضمون یہ ہے:
لو جمع لی العرب فی صعید واحد واستطعت أن أوجہ إلیہم خطاباً تسمعہ آذانہم وتعیہ لقلت لہم! أیہا السادۃ! إں الإسلام الذی جاء بہ سیدنا محمد العربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہو منبع حیاتکم، ومن أفقہ طلع صبحکم الصادق، وأن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہو مصدر شرفکم وسبب ذکرکم، وکل خیر جاء کم، بل وکل خیر جاء العالم، فإنما ہو عن طریقہ وعلیٰ یدیہ، أبی اللّٰہ أن تتشرفوا إلا بانتسابکم إلیہ وتمسککم بأذیالہ