دنیا پرست افراد کو میدانِ عمل سے جب تک ہٹایا نہیں جائے گا، فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
یہی وہ پیغام ہے جو مولانا کی تقریروں اور تحریروں میں ملتا ہے، مسئلۂ فلسطین کے حل کے لئے مولانا نے جو کوششیں فرمائی ہیں وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہیں ، ان کی پوری تفصیلات مولانا کی کتاب ’’المسلمون وقضیۃ فلسطین‘‘ (مسلمان اور مسئلۂ فلسطین) المیۂ فلسطین سے تین سبق، عالم عربی کا المیہ وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
خلیجی جنگ
اگست ۱۹۹۰ء کو عراق کی حکومت نے کویت پر غاصبانہ قبضہ کریا اور پھر غارت وفساد کا وہ طوفانِ بدتمیزی برپا ہوا جو پورے عالم اسلام کے لئے تکلیف وندامت کا باعث ہوا، اس کامیابی نے عراق کے حوصلے بڑھادئے اور اس کی نظر بدحجاز مقدس پر بھی پڑنے لگی، اس خطرناک صورتِ حال کو خاص طور سے اس دینی حلقہ نے محسوس کیا جو عالم عربی میں پیدا ہوئی پچھلی تحریکات اور خصوصاً قومیت عربیہ (جو البعث العربی کے نام سے معروف ہے) کی تاریخ، عوامل واسباب اور ان کے فکری سرچشموں سے بخوبی واقف تھا اور جسے یہ خطرہ سامنے نظر آرہا تھا کہ اس طرح کے تخریبی اقدامات اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے اور حجاز مقدس کے تقدس کو پامال کرنے کی کوششیں ہیں جو دراصل غیر اسلامی افکار اور مغرب کی دشمنانہ منصوبہ بندیوں ہی کے سلسلہ سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کا اصل مقصد اسلام کے اس اصیل واولین مرکز میں داخل ومؤثر بن کر عربوں کے ذہن کی تہذیبی ارتداد اور جاہلیت اولیٰ کی طرف بازگشت اور دین اور عقیدہ وعمل میں ضعف وتزلزل پیدا کرنا اور کفر سے نفرت اور جاہلیت سے عار محسوس کرنے کے جذبات کو ختم کرنا اور دورِ جاہلیت ہی کو قابل فخر زمانہ ثابت کرنا تھا۔
مولانا نے ہندوستان میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ان خطرات کو محسوس کیا، عربوں کے افکار، مسائل ومشاکل اور محاسن ومعائب پر مولانا کی جتنی گہری نظر، مطالعہ اور