مولانا علی میاں ؒ کے اساتذہ وتلامذہ
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو علوم حاصل فرمائے وہ ماہر فن کامل اساتذۂ کرام سے حاصل فرمائے، یہی وجہ ہے کہ مولانا یکتائے روزگار ثابت ہوئے، اخلاص واختصاص دونوں اوصاف ان کی شخصیت میں یکجا جمع ہوگئے تھے، اور انہیں دونوں اوصاف کو عام کرنے اور پھیلانے اور اختیار کرنے کی دعوت مولانا نے تازندگی دی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہی دو اوصاف جنہیں کیف علم اور سوز عشق سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، انسان کو کامل بنانے کے لئے کافی ہیں ، خدائے ذوالجلال نے یہ دونوں جوہر مولانا کو عطا فرماکر ان کی شخصیت کو جامعیت، کمال اور دل آویزی عطا فرمادی تھی۔
مولانا نے عربی کی اصل تعلیم مولانا خلیل عرب سے حاصل کی ہے، ان کی شخصیت کی تعمیر میں عرب صاحب کا بہت دخل ہے، عرب صاحب کی خصوصیات اور ان سے استفادہ کی تفصیلات آگے کے ابواب میں آئیں گی۔
اپنے ایک قریبی رشتہ دار مولانا عزیز الرحمن حسنی سے ابتدائی کتابیں نحومیر، میزان ومنشعب، صرف میر اور پنج گنج وغیرہ پڑھیں ، اپنے عم محترم سید محمد اسماعیل صاحب (جو اچھے فارسی داں تھے) سے فارسی کی کتابیں خصوصاً شیخ سعدی کی بوستاں پڑھی، ابتداء میں مولوی محمود علی لکھنوی سے ابتدائی کتابیں (جن میں مولانا کے والد ماجد کی تعلیم الاسلام اور نو رالایمان بھی تھیں ) پڑھیں اور خوش خطی سیکھی، حساب اور اردو وغیرہ کی مشق ماسٹر محمد زماں خاں صاحب سے کی، اپنے برادر بزرگ ڈاکٹر سید عبد العلی صاحب سے انگریزی وعربی میں کافی استفادہ کیا، انگریزی تعلیم مولانا نے جناب خلیل الدین ہنسوی، اپنے ماموں جناب سید