اپنی ذہانت اور مختلف الخیال افراد اور جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی اپنی بے مثال صلاحیت سے مجلس مشاورت کو بڑی حد تک زندہ رکھا۔ ۱۹۸۰ء میں مرادآباد کے فساد کے موقع پر مجلس کے وفد نے مرادآباد کا دورہ کیا، حضرت مولانا بھی تشریف لے گئے، مگر مجلس کے حالات اچھے نہیں تھے اور ۱۹۸۴ء میں مفتی صاحب کے انتقال کے بعد سے تو مجلس کی ساری سرگرمیاں دفن ہوکر رہ گئیں ۔
ان تفصیلات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت مولانا نے اپنے احساسِ دروں اور جوشِ ایمانی کے نتیجہ میں مجلس کے قیام کی آواز اٹھائی، اس کی تمام سرگرمیوں میں شریک رہے، اور ہر نازک موڑ پر اس کو بچانے اور باقی رکھنے کے لئے کوشاں رہے، مسلم مجلس مشاورت کے پلیٹ فارم سے مولانا کی سرگرمیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
مجلس کا ڈھانچہ اب بھی قائم ہے، اقتدار کے لئے رسہ کشی بھی جاری ہے، اس وفاقی واصولی قیادت کی ضرورت اب بھی باقی ہے اور اُس کا کوئی نعم البدل بھی سامنے نہیں آسکا ہے؛ لیکن اِ س کے لئے اُن قائدانہ خصوصیات کے حامل افراد کہاں سے ملیں جن میں حضرت مولانا جیسی وسعت واخلاص، بے لوثی اور استغناء اور کام کی تڑپ اور لگن ہو؟
انہیں جیسے افراد کو میدان میں آنے اور مشاورت کی ذمہ داری سنبھالنے کی ضرورت ہے، مجلس کے مقاصد اب بھی حاصل ہوسکتے اور اور اس کا تعمیری کردار اب بھی سامنے آسکتا ہے:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں پر
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
تحریکِ پیامِ انسانیت
تحریک پیامِ انسانیت خود حضرت مولانا علی میاں ؒ کے دل کی گہرائیوں سے ابھری ہوئی تحریک ہے، اور عشق کے اس دردمند کے نئے انداز وپیام کا مظہر بھی ہے، بقولِ شاعر: