حضرت سید احمد شہید کے درۂ ۱۲۳۴ھ کے بعد ایسی اصلاحی اور انقلابی لہر نہیں آئی، مدحِ صحابہ کی تحریک جب امام اہل سنت نے شروع کی، تب بھی مولانا نے ان کا سوزِ دروں ، جذبِ کامل اور استغراق دیکھا اور گہرا اثر لیا، مولانا کو امام اہل سنت کی ہمراہی میں دوبار سفر کا شرف حاصل ہوا۔ دہلی کے ایک سفر میں امام اہل سنت کا ٹکٹ فرسٹ کلاس کا اور حضرت مولانا ورفقاء کاتھرڈ کلاس میں تھا، امام اہل سنت مولانا کے ساتھ تھرڈ کلاس میں بیٹھے اور اصرار کے باوجود فرسٹ کلاس میں جانے پر راضی نہ ہوئے اور ہر بار فرمایا: ’’جہاں تم ہو وہاں میں ہوں ‘‘ پوری شب بے آرامی میں گذری، لیٹنے کا موقع بمشکل ملا؛ لیکن پھر بھی وہ خوش رہے اور کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے، اس کے بعد مولانا کی ان سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ہر موقع پر ان کی شفقتیں محسوس ہوئیں ۔ (پرانے چراغ حصہ دوم)
r حضرت مولانا شاہ حلیم عطا سلونیؒ:
شاہ حلیم عطا صاحب کو قریب سے دیکھنے کا اصل موقع مولانا کو ۱۹۳۱ء میں اس وقت ملا جب مولانا اپنے پھوپھا مولانا سید محد طلحہ حسنیؒ کے ہمراہ پہلی بار ’’سلون‘‘ تشریف لے گئے، اس کے بعد شاہ صاحب کی خصوصی توجہ مولانا پر شروع ہوئی، لکھنؤ اُن کی کئی بار آمد ہوئی اور ہر مرتبہ مولانا ان کے وسعت مطالعہ، ذوقِ لطیف اور پاکیزگی سے متأثر ہوئے، شاہ صاحب ہی کے مشورہ پر مولانا نے امام ابن جوزی، ابن رجب، ابن عبدالہادی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ وابن قیم کی بعض اہم کتابوں سے استفادہ کیا، شاہ صاحب کو ندوۃ العلماء میں لانے میں مثالی کردار مولانا ہی کا ہے، اپنے برادر بزرگ ناظم ندوۃ العلماء ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب مرحوم کے مشورہ سے مولانا نے شاہ صاحب سے ندوۃ العلماء میں تدریسی ذمہ داریاں قبول کرنے کی اصرار کے ساتھ گذارش کی، چناں چہ شاہ صاحب ۱۹۳۹ء میں تشریف لائے اور حدیث کے اسباق پڑھانے شروع کئے، شاہ صاحب سے ندوۃ العلماء کے اساتذہ نے بھی