اور نکتہ شناسی کی دلیل ہے، ان کی یہ شدید خواہش تھی کہ مولانا حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی سوانح پر کام کریں ، اکثر فرماتے تھے کہ تمہارے ذمہ یہ قرض ہے، اس کو ادا کرنا ہے، اسی کے پیش نظر مولانا نے بہت بعد میں حکیم صاحب کی وفات کے بعد ’’المرتضیٰ‘‘ مرتب فرمائی جو اپنے موضوع پر بے انتہاء جامع تصنیف ہے۔ (پرانے چراغ حصہ اول)
r مولانا عبد الباری ندویؒ:
مولانا عبدالباری ندویؒ حضرت مولانا علی میاں ؒ کے برادر بزرگ ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحبؒ کے خاص دوستوں میں تھے، لکھنؤ میں جب مولانا مدنیؒ کی مستقل آمد ورفت شروع ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کے مکان پر قیام ہونے لگا، تو ان سے ملاقات کے لئے مولانا عبدالباری صاحب کی آمد ورفت بڑھی اور یہیں سے مولانا علی میاں ؒ کا تعلق ان سے شروع ہوا مولانا نے ان کی کتاب ’’مذہب وعقلیات‘‘ سے بڑا فائدہ اٹھایا اور اسے اپنی محسن کتابوں میں شمار کیا ہے، اور مولانا ہی کے اشارہ پر اس کا عربی ترجمہ ’’الدین والعقل‘‘ مولانا سید واضح رشید ندوی نے کیا ہے، اس وقت مولانا عبدالباری صاحب کا قیام جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں بطور استاذ تھا، گرمیوں میں لکھنؤ آتے تھے، اسی زمانہ میں مولانا علی میاں ؒ ان کے درسِ قرآن میں کچھ دنوں شریک ہوئے اوران کے حکیمانہ اشاروں سے مستفید بھی ہوئے، پھر مولانا علی میاں ؒ نے اپنی تدریس کے زمانہ میں بھی ندوۃ العلماء کے اونچے درجات کے طلبہ کو اُن کے درسِ قرآن سے استفادہ کی ترغیب دی اور خود بارہا ساتھ گئے اور فائدہ اٹھایا، ۱۹۳۹ء میں سیرتِ سید احمد شہید کے مطالعہ کے بعد مولانا عبدالباری صاحب مرحوم نے ایک مکتوب میں مولانا کو لکھا کہ:
’’سید صاحب رحمہ اللہ کے حالات میں آپ کی کتاب سفر میں ختم کی؛ بلکہ کہنا چاہئے کہ یہ سفر کاملین ایمان کی مجلس وصحبت میں تھا، ایمان واسلام ان ہی بزرگوں کا تھا، بابِ