تصوف وسلوک کے سلسلہ میں حضرت مولانا علی میاں ؒ کا معتدل اندازِ فکر
تصوف کیا ہے؟ ایک حلقہ تو اس کا نام ستے ہی ایسی بیزاری ظاہر کرتا ہے جیسے اس سے بڑا گناہ اور جرم کوئی اور ہوہی نہیں سکتا، جب کہ دوسری طرف ایک طبقہ اس کے بارے میں اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ تمام تر بے اعتدالیوں ، خود ساختہ طریقوں اور بے اصل رسموں کو تصوف کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرتا ہے، یہ وہ افراط وتفریط ہے جو اسلام کے مزاج وامتیاز سے بالکل ہم آہنگ نہیں ، اسلام ایک معتدل ومتوازن اور جامع دین ہے، امت مسلمہ کو امت وسط اور خیر امت بناکر بھیجا گیا ہے۔
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اس افراط وتفریط کو ختم کرکے راہِ اعتدال بتانے اور دکھانے کا اہم فریضہ اپنی تقریروں اور تحریروں خصوصاً اپنی مایۂ ناز تالیف ’’ربانیۃ لا رہبانیۃ‘‘ (تزکیہ واحسان یا تصوف وسلوک) میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے۔
مولانا نے اصطلاحات اور وسائل میں الجھنے کے بجائے حقائق ومقاصد کی طرف قدم بڑھانے کی دعوت ہمیشہ اور ہر موڑ پر دی ہے، مولانا کا کہنا یہ ہے کہ تصوف اصلاً دوسری صدی کی اصطلاح ہے، اصلاً قرآنِ کریم میں تزیکہ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی نفوس کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ اور رذائل سے پاک صاف کیا جائے، تزیکہ بھی مقاصدِ بعثتِ محمدی میں شامل ہے، جس کا اظہار آیت قرآنی: {لقد من اللّٰہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولاً من انفسہم یتلو علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ، وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین‘‘ (درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہیں میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ان کی زندگیوں کو