حضرت مولانا علی میاں ؒ اور دارالعلوم دیوبند
’’اس درس گاہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اختلافی مسائل کے بجائے توحید وسنت پر اپنی توجہ مرکوز کی (اور یہ وہ وراثت اور امانت ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے وسیلہ سے اس کو ملی، اور ابھی تک اس کو عزیز ہے) دوسری خصوصیت اتباعِ سنت کا جذبہ اور فکر، تیسری خصوصیت تعلق مع اللہ کی فکر اور ذکر وحضوری اور ایمان واحتساب کا جذبہ، چوتھا عنصر ہے اعلاء کلمۃ اللہ کا جذبہ اور کوشش، یہ چار عناصر مل جائیں تو دیوبندی بنتا ہے، اگر ان میں سے کوئی عنصر کم ہوجائے تو دیوبدیت ناقص، فضلائے دارالعلوم دیوبند کا یہ شعار رہا ہے کہ وہ ان چار چیزوں کے جامع رہے ہیں ‘‘۔ (زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ۲۳)
یہ اس عالمانہ اور دردمندانہ تقریر کے الفاظ ہیں جو ہمارے ممدوح حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے دارالعلوم کے تاریخ ساز اجلاس صد سالہ منعقدہ ۱۹۸۰ء میں لاکھوں انسانوں کے مجمع عام میں فرمائی اور جو بجا طور پر یادگار افادیت کی حامل اور مولانا کے علم وبصیرت کا شاہکار تھی۔
حضرت مولانا کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے کس قدر گہرا اور اٹوٹ تھا، اسے خود مولانا کی زبان میں پڑھئے، مولانا نے ۱۲؍اگست ۱۹۷۲ء کی شب کو دارالعلوم کی دارالحدیث کے وسیع ہال میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں اس سعادت وتوفیق پر بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدۂ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہاں حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہٗ کی زندگی میں طالب علمانہ اور نیاز مندانہ حاضری اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی، میں اس کو اپنے لئے سرمایۂ سعادت سمجھتا ہوں اور اس سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی امیدیں رکھتا