تحریروں میں اخلاص اور ادبیت کی کوئی حد ونہایت نہیں ‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۲۰۹)
ان کے بعض نظریات اور بعض تنقیدی آراء سے اختلاف کے باوجود مولانا ان کے خلوص، ادبیت اور حمیت وحمایت حق کے جذبہ سے بے حد متأثر رہے۔ خود ماہر صاحب تازندگی مولانا کی خدمات کے معترف، قائل اور مدح سرا رہے۔
r جگر مرادآبای مرحوم:
جگر صاحب کے کلام سے مولانا بہت پہلے سے واقف ومتأثر تھے، ملاقات تقسیم ہند کے بعد ہوئی، پہلی ملاقات میں جگر صاحب مولانا سے بے حد احترام وتواضع سے ملے، اور اپنا کچھ کلام بھی سنایا، اس کے بعد ملاقاتیں اور مجلسیں بڑھتی گئیں ۔ ۲۶؍اگست ۱۹۴۸ء کو مولانا نے ندوۃ العلماء کی ایک کانفرنس میں اپنا ایک مؤثر مقالہ پڑھ کر سنایا، جس میں حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ اور خطرات کی نشان دہی تھی (یہ مقالہ نشانِ راہ کے عنوان سے طبع ہوچکا تھا) اس کانفرنس میں جگر صاحب بھی شریک تھے، انہیں یہ مقالہ اتنا پسند آیا کہ دوسری نشست میں اسے دوبارہ پڑھنے کی درخواست کی۔
اس کے بعد جگر صاحب سے مولانا کے تعلقات مستحکم ہوتے گئے، وہ جب لکھنؤ آتے ضرور ملاقات کرتے، مولانا ان سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کرتے اور وہ بڑی خوش دلی سے سنایا کرتے۔ مولانا نے لکھا ہے:
’’مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ جگر صاحب کچھ سنانے کی فرمائش سے آشفتہ مزاج ہوجاتے ہیں اور بڑے بڑے سرکاری افسروں اور مقتدر لوگوں کو یہ تلخ تجربہ ہوچکا ہے، میں سادگی سے ان سے اپنا کلام سنانے کی فرمائش کرتا اور وہ پیشانی پر ایک شکن لائے بغیر بڑی خوش دلی کے ساتھ اپنی کوئی غزل سناتے، میرا شوق ہل من مزید کہتا اور وہ لبیک کہتے‘‘۔
(پرانے چراغ ۱؍۳۶۷)
مولانا جگر صاحب کے خیالات کی جدت، فکر کی بلندی اور طبیعت کی خود داری، عزت