مغربی تہذیب کے سلسلہ میں حضرت مولاناؒ کا معتدل اور جامع موقف
مغربی تہذیب کا جو سیلابِ تند وتیز ایک عرصۂ دراز سے عالم عربی اور عالم اسلامی کو اپنی زد میں لئے ہوئے ہے اور اپنی ظاہری رعنائیوں ، دل فریبیوں اور جاذبیت کی وجہ سے مرکز توجہ اور منظور نظر بنا ہوا ہے، اور وہ پختہ مسلمان بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں جن کے اسلاف تقریباً دس صدیوں تک اپنے علوم واقدار کے ساتھ دنیا کے حاکم وسربراہ رہے۔ مغرب کا یہ کلچر (جو حضرت مولانا علی میاں ؒ کے الفاظ میں مسیح دجال ہے) دراصل اسلامی ثقافت پر حملہ، اسلامی اقدار وغلبہ کو کمزور کرنے کی گہری سازش اور ایک سوچا سمجھا اور جانا بوجھا منصوبہ ہے۔
مغربی تہذیب واقدار کے سلسلہ میں تین ہی موقف ہوسکتے ہیں : (۱) سلبی (Negative) موقف: یعنی مغربی تہذیب سے بالکل گریز اور نفرت اور اس کے ہر ہر جزء کی مخالفت اور ہر موقع پر اُسے شجر ممنوعہ سمجھنا۔ یہ موقف نہ تو عقلی اور طبعی طور پر درست ہے، نہ ہی شرعی نقطۂ نظر سے صحیح ہے؛ کیوں کہ اسلام ہر جگہ سے صالح ونافع اشیاء کے اخذ کا داعی ہے۔ (۲) ایجابی وتائیدی(Positive) موقف: یعنی خیر وشر اور صلاح وفساد ہر موقع پر مغرب کے کلچر کی پوری پیروی اور مکمل سپردگی۔ یہ طریقۂ فکر وعمل اور موقف افراط پر مبنی ہے، اور پہلے سلبی اور تفریط کے موقف سے بدرجہا سنگین اور خطرناک ہے، اس لئے کہ یہ اسلام، اسلامی اقدار، تہذیب وتمدن اور خصوصیات کو دفن کرڈالنے کے مرادف ہے۔ (۳) اعتدال وتوازن: یعنی اسلامی عقائد اور افکار واقدار سے غیر متصادم چیزوں کو اختیار کرنا اور متصادم اشیاء کو ٹھکرادینا۔ بالفاظِ دیگر خیر کا انتخاب اور شر سے اجتناب، یہ موقف ہر لحاظ سے جامع اور معتدل ہے، اور یہی اسلام کے اصول وہدایات سے ہم آہنگ بھی ہے، حضرت مولانا علی