ع: کلاہِ گوشۂ دہقاں بآفتاب رسید
حضرت فتح پوریؒ نے اس کا جو جواب دیا وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ تحریر فرمایا:
’’اس کا صحیح مصداق تو یہ تھا کہ میں پڑھتا؛ کیوں کہ ایک بادشاہ نے کسی دہقان کے یہاں نزوول فرمایا تھا، اس پر اس نے یہ کہا تھا، تو آپ کی مثال شاہوں کی سی ہے کہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں نزول فرماتے رہتے ہیں ، چناں چہ ایک دہقان کے یہاں بھی نزول فرماکر اس کو شرف بخشا، اسی لئے اگر میں کہوں تو حق بجانب ہوں ‘‘
ع: کلاہِ گوشۂ دہقاں بآفتاب رسید
(پرانے چراغ۱؍ ۱۶۸)
کچھ عرصہ بعد حضرت فتح پوری الٰہ آباد منتقل ہوئے تو اس وقت بھی مولانا حاضر ہوئے، واپس آکر ایک مکتوب لکھا، جس میں حضرت کی شفقت پر گہرا تأثر ظاہر کیا، حضرت نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا:
’’جو حضرات اہل علم میرے پاس آمد ورفت فرماتے ہیں ، ان میں غالباً سب سے زیادہ قلب کا رجحان جناب کی طرف ہوتا ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۱۷۱)
جو ۱۹۶۴ء میں مولانا الٰہ آباد میں دینی تعلیمی کونسل کے اجلاس میں تشریف لے گئے، الٰہ آباد اسٹیشن پر پہنچے، تو حضرت فتح پوریؒ کو استقبال کے لئے موجود پایا، یہ غایت محبت تھی، حضرت کی قلبی شفقت وتعلق کامکمل ظہور اس وقت ہوا جب مولانا ۱۹۶۷ء میں سیتاپور میں آنکھ کے آپریشن کے سلسلہ میں مقیم تھے، اس وقت حضرت بار بار خطوط وپیغامات کے ذریعہ حاصل معلوم کراتے اور فکر مندی کا اظہار کرتے، پھر جب فائدہ نہ ہوا تو حضرت ہی کے اشارے پر مولانا نے لکھنؤ واپس آکر ہومیوپیتھک علاج شروع کیا، جس سے کافی افاقہ ہوا، اس کے بعد بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ہر بار حضرت کی شفقت ومحبت کا ظہور ہوتا رہا۔
r حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ:
مولان گیلانی سے حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کا تعلق اصلاص ۱۹۴۱ء سے شروع ہوا، جب حضرت مولانا کو اپنی کسی علمی ضرورت سے مولانا گیلانی کے ایک مقالہ سے (جو جمع وترتیب قرآن پر تحریر تھا) استفادہ کی ضرورت پیش آئی، مولانا گیلانی کی تصنیف ’’النبی الخاتم‘‘ مولانا علی میاں ؒ نے بہت متأثر ہوکر پڑھی اور باربار یہ فرمایا کہ: ’’میں نے اپنی ساری عمر میں سیرتِ نبوی میں ’’رحمۃ للعالمین‘‘ (مصنفہ: قاضی محمد سلیمان منصورپوریؒ) اور ’’النبی الخاتم‘‘