جذبۂ سرفروشی، محبت وگرم جوشی، باہمی مستحکم روابط، زندگی سے قریبی تعلق، مسائل ومشاکل کا حل، دینی وعلمی اختلافات سے بچ کر کام کرنے کی لگن اور الحاد ولادینیت کے بہتے دھارے کو روکنے کا عزم سرفہرست ہیں ، اخوان کے بارے میں مولانا کی رائے یہ تھی کہ اگر یہ عملی سیاست میں کچھ عرصہ اور نہ الجھتے اور اصلاحی ودعوتی سرگرمیوں میں ہمہ تن منہمک رہتے تو بلادِ عربیہ میں ایک اسلامی انقلاب برپا ہوسکتا تھا، اس کا احساس شیخ حسن البناء کو بھی آخر میں ہوگیا تھا، مجموعی لحاظ سے یہ عصر حاضر کی سب سے پہلی عظیم اور منظم اسلامی تحریک تھی جسے اپنے مقاصد میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی۔
دیگر ادارے
دمشق کی مشہور اور مؤقر اکیڈمی ’’المجمع العلمی‘‘ نے ۱۹۵۷ء میں ہندوستان کی طرف سے اپنا مراسلاتی رکن مولانا کو منتخب کیا، اکیڈمی کے لئے مولانا نے پہلا مضمون ادبِ عربی کو تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور عربی ادب وتاریخ ادب کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت سے متعلق تحریر فرمایا، اس کے بعد مولانا کے متعدد مضامین طبع ہوتے رہے۔
۱۹۸۰ء میں مولانا ’’مجمع اللغۃ العربیۃ‘‘ اردن کے رکن بنائے گئے، مولانا ’’رابطۃ الجامعات الاسلامیۃ‘‘ رباط (Federation Islamic Universities) کے بھی رکن تھے، مئی ۱۹۷۶ء میں اس کے ایک جلسہ میں مولانا رباط تشریف لے گئے، مولانا نے شیخ سعدی کے اس شعر کو بنیاد بناکر مؤثر تقریر کی اور علوم کی دنیا میں نبوتِ محمدی کے انقلابی کردار کو تفصیل سے بیان کیا:
یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست
کتبہ خانۂ چند ملت بشست
اسی موقع پر وہاں کی وزارۃ الثقافۃ کی طرف سے مولانا کو خطاب کی دعوت دی گئی،