عالم عرب کی تحریکات، اداروں اور شخصیات سے حـضرت مولانا کا ربـط وتعلق
رابطۂ عالم اسلامی
اشتراکی نظریات کا جو طوفان تند وتیز مصر کے سیاہ وسفید کے مالک اور اشتراکیت کے سب سے بڑے علم بردار نمائندہ جمال عبدالناصر کی نمائندگی ورہبری میں حملہ آور ہورہا تھا، اس کا مقابلہ مغربی مفکرین کے ہاں بھی اسلام کے سوا کسی اور ذریعہ سے ناممکن تھا؛ کیوں کہ اسلام مذہب وسیاست دونوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے حیاتِ انسانی کے تمام گوشوں میں مذہب کا عمل دخل دیکھنا چاہتا ہے، اس دیو استبداد کے مقابلہ کے لئے اگر کوئی مؤثر شخص سامنے آیا تو وہ تھے ’’شاہ فیصل شہید‘‘، جن کی زیر قیادت سعودی عرب نے اتحاد اسلامی کے تصور کے پیش نظر ناصری اشتراکیت کی بیخ کنی کا بیڑا اٹھایا۔ ۱۹۶۲ء میں حج کے موقع پر سعودی عرب نے عالم اسلام کے علماء، اہل خرد ودانش اور اربابِ بصیرت وسیاست کو اتحاد اسلامی کے امکانات پر غور کرنے کے لئے مکہ معظمہ میں مدعو کیا، تو اس میں بڑی تعداد اکٹھا ہوئی اور حج کے بعد علماء ودانشوروں کے سامنے ۱۸؍مئی ۱۹۶۲ء کو رابطہ عالم اسلامی کا قیام عمل میں آیا، یوں تو اس اجتماع کا اس وقت یہی مقصد تھا کہ امت مسلمہ کو غیر مذہبی اشتراکی عناصر کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل پر بحث کی جائے، مگر بعد میں رابطہ ایک بین الاقوامی اسلامی تنظیم کی شکل میں سامنے آیا، جسے مسلمانوں کی عوامی وثقافتی تنظیم کا نام دیا گیا، رابطہ کا صدر دفتر مکہ معظمہ میں طے پایا اور مجلس تاسیسی کا قیام عمل میں آیا، مجلس تاسیسی کا پہلا اجلاس دسمبر ۱۹۶۲ء میں ہوا، جس میں یہ طے ہوا کہ رابطہ پر حجازی علماء ہی غالب رہیں گے؛ البتہ ارکانِ تاسیسی میں ہندوستان سے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، پاکستان سے مولانا سید