اسلامی بیداری کے سلسلہ میں مولانا کے بعض افکار وآراء کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا نے نومبر ۱۹۸۸ء میں ابوظہبی کے ایک اجلاس میں ’’اسلامی بیداری کے رہنما اصول‘‘ کے موضوع پر اپنے خطاب میں فرمایا:
’’آج کے زمانہ کو اسلامی دعوت وبیداری کی حاجت دوسرے زمانوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے؛ کیوں کہ آچ کا دور شہواتِ نفسانی اور شکوک وشبہات ذہنی کا دور ہے، اسلام سے دور ونامانوس فلسفوں اور افکار ونظریات کازمانہ ہے، ہمارے آچ کے زمانہ میں اسلامی بیداری کی ضرورت کہیں بڑھ گئی ہے، اور اس کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، دنیا کے کسی ملک میں بھی یہ بیداری پیدا ہو، ہمیں اس سے ہم دردی ہے، ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں ؛ لیکن یہ ہمدردی ہمیں اس بات سے نہیں روکتی کہ تعمیری نقطۂ نظر سے اس کا تنقیدی جائزہ لیں ، خیر وصلاح کے معیار پر پرکھیں اور اسلامی عقائد کی کسوٹی پر کس کو دیکھیں ، پھر اس کے بارے میں صحیح رائے قائم کریں اور صحیح فیصلہ کریں ‘‘۔ (اسلامی بیداری کی لہر پر ایک نظر، بقلم: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ۱۴، ترجمہ: ترشید الصحوۃ الاسلامیۃ، اردو ترجمہ بقلم: مولانا نور عظیم ندویؒ)
اس موقع پر مولانا نے اسلامی تحریکات میں حصہ لینے والوں کے لئے حسب ذیل پہلوؤں اور گوشوں کی اہمیت بھی واضح کی۔
(۱) اسلامی عقائد کے ساتھ کامل ہم آہنگی
اسلامی بیداری اور اسلامی دعوت کی صحت وسلامتی کے لئے اور اسے قابل اعتماد ولائق احترام اور ہر طرح حفاظت ومدافعت کا مستحق بنانے کی پہلی شرط یہ ہے کہ یہ دعوت وبیداری قرآن وحدیث پر مبنی عقائد سے مکمل مطابقت رکھتی ہو، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے اسوہ وعمل، ماہرین دین وشریعت کے علم وفہم اور جمہور امت کے عقائد سے ہم آہنگ ہو، ایسا نہ ہو کہ سیاسی دھاروں اور وقتی رجحانات کے رخ