حضرت مولانا علی میاں ندوی: اقبال کا رمردِ مؤمن
برصغیر کے شعراء اور مفکرین میں علامہ اقبال کا نام اور کلام بے حد نمایاں اور سرفہرست ہے، حضرت مولانا علی میاں ؒ کے نزدیک اقبال اور ان کا کلام اپنی معنویت اور تاثیر واسلامیت کے لحاظ سے ممتاز ہے، مولانا بدوِ شعور کے بعد ہی سے اقبال کے پیغام وفکر سے متأثر ہوئے، اور زمانۂ طالب علمی میں مولانا نے اقبال کی نظم ’’چاند‘‘ کا عربی میں ترجمہ کیا تھا، اپنے لاہور کے پہلے سفر جون ۱۹۲۹ء میں مولانا نے پندرہ سال کی عمر میں علامہ اقبال سے ملاقات کی، مولانا کا تعارف آپ کے والد ماجد مصنف ’’گل رعنا‘‘ کے حوالہ سے کرایا گیا، مولانا نے اپنا ترجمہ علامہ اقبال کی خدمت میں پیش کیا، علامہ نے اسے پسند کیا اور سراہا اور بعض عرب شعراء کے متعلق کچھ سوالات مولانا کی معلومات کا اندازہ کرنے کے لئے پوچھے، اس ملاقات میں مولانا اقبال کی تواضع، سادگی اور بے تکلفی کی خصوصیات سے متأثر ہوکر لوٹے۔
اقبال کے کلام کی بلندی اور تاثیر کا اصل جوہر مولانا کے سامنے اس وقت آیا جب انہوں نے ۱۹۳۵ء کے بعد سے اقبال کے شعری مجموعوں ’’ضربِ کلیم، بالِ جبریل، اسرارِ خودی، رموز بے خودی، مثنوی، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق، پیام مشرق، جاوید نامہ ارو زبورِ عجم‘‘ کامطالعہ کیا، مولانا کے ذہن ودماغ نے ان کا وہ اثر قبول کیا جو ادب وشعر اور فکر کے میدان میں کسی اور کا نہ تھا، مولانا کے بقول اقبال سے متأثر ہونے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ معاصر اہل قلم واہل علم کی علمی تحقیقات وفتوحات اور پیش رفت اورمواد ومعلومات کے مآخذ