(۶) عربوں کی اصلاح کا اہتمام
یوں تو مولانا کے دعوتی کاموں کی جولان گاہ مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، عرب بھی ہے اور عجم بھی؛ لیکن مولانا نے عربوں کی اصلاح ودعوت کا اہتمام زیادہ فرمایا، ان کے مسائل پر بار بار قلم اٹھایا، تقریریں کیں اور انہیں سلجھانے اور حل کرنے کی کوششیں فرماتے رہے، وہ عرب کو روئے زمین کی سب سے زیادہ مستحق اکرام ومودّت قوم سمجھتے تھے؛ لیکن ان کے نزدیک اسلام وایمان کا درجہ ہر چیز سے فائق تھا، مولانا نے بارہا فرمایا اور جگہ جگہ لکھا ہے کہ اسلام وایمان کی صلابت کے ساتھ عرب سب سے زیادہ مستحق قیادت ہیں ، انہیں اپنا یہ مقام سمجھنا اور یہ منصب سنبھالنا چاہئے۔ (کاروانِ زندگی ودیگر محاضرات ،العرب والاسلام ۶۰)
(۷) اسلوبِ بیان کی بلاغت وادبیت
ادب مولانا کے نزدیک سب سے اہم وسیلہ دعوت ہے، دعوتی کاموں میں مولانا کا تقریری وتحریری اسلوب بڑا ادیبانہ اور سحر آفریں ہے جو ہر موقع پر دلوں میں گھر کرتا، اثر کرتا اور وآمادۂ عمل کرتا رہا ہے، یہ وہ امتیازی خصوصیت ہے جو خال خال ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے، قرآن وحدیث سے والہانہ شغف، وسعت اور جہد مسلسل نے مولانا کو یہ امتیاز عطا کردیا تھا، ان کی کوئی بات یا تحریر اس امتیازی جوہر سے خالی نہیں ہے، ان میں بے پناہ تاثیر اور کشش ہے اور یہ مولانا کے مخلص وبے لوث ہونے کی دلیل ہے؛ اس لئے کہ یہ ان کے دل کے اندرون کی صدا ہوتی ہے اور:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
حضرت مولانا رحمہ اللہ کی رائے میں دعوتی سرگرمیوں میں تین اہم نکتوں کو پیش نظر اور مطمح نگاہ بنانا ضروری ہے، ہم مختصراً ان کا ذکر کرتے ہیں ۔ (ماخوذ از: مذکرات سائح فی الشرق العربی ۹۵-۹۶)