مفتی صاحب نے مولانا سے کئی بار یہ مطالبہ کیا کہ اپنی کوئی تصنیف ندوۃ المصنفین کو برائے اشاعت دیں ، ۱۹۷۰ء کے آغاز میں مولانا نے اپنی تصنیف ’’حیاتِ عبدالحئی‘‘ دی، جو نومبر ۱۹۷۰ء ہی میں طبع ہوئی، ۱۹۷۸ء میں مفتی صاحب مولانا کی دعوت پر رائے بریلی تشریف لائے اور واپسی پر اپنے ایک مکتوب میں بڑی خوشی اور محبت کا اظہار کیا۔ مشاورت کے تمام دوروں میں مولانا ہر موقع پر علمی ودینی وطبعی مناسبت کی وجہ سے مفتی صاحب کے ساتھ ہی قیام چاہتے تھے اور مفتی صاحب کی خوش آوازی کی وجہ سے جہری نمازوں میں خصوصاً انہیں کی اقتداء کی خواہش کرتے تھے، مولانا تازندگی ان کے تعمیری وایجابی نقطۂ نظر، دور اندیشی اور بصیرت کے معترف رہے۔
r حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانیؒ:
مولانا منت اللہ صاحب سے مولانا کا تعلق کافی قدیم ہے؛ البتہ ندوۃ العلمااء کی مجلس انتظامی اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے جلسوں میں زیادہ ربط بڑھا، اکثر موقعوں پر اتفاقِ رائے بھی مناسبت کی دلیل تھی، مولانا منت اللہ صاحب کا مولانا سے گہرا اور اٹوٹ تعلق اس وقت شروع ہوا جب مولانا منت اللہ صاحب کی توجہ ومحنت سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (جس کی تفصیلات آگے آئیں گی) کا قیام ہوا، پھر ۱۹۸۳ء میں انہیں کے اصرار پر مولانا صدر بورڈ منتخب ہوئے، اور مختلف اسفار، جلسوں ، تقریروں ، وزیراعظم ودیگر وزراء واعیان سے ملاقاتوں میں ان کا ہر دم ساتھ رہا اور ہر موقع پر ان کے ذہنی ومزاجی توازن، اخلاص، احساس ذمہ داری، ملت سے ربط محکم اور غیرت وجرأت کے نمونے سامنے آئے، جن سے مولانا بے حد متأثر ہوئے۔
r حضرت مولانا مسعود عالم صاحب ندویؒ:
مولانا مسعود عالم ندوی سے مولانا کا ربط ۱۹۲۹ء میں دورانِ تعلیم شروع ہوا، ان کے