حضرت مولانا علی میاں ؒ کی ادبی خدمات اور تصانیف
اس حقیقت کے اظہار میں کسی قسم کے تردد اور اور مبالغہ کی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت مولانا علی میاں ؒ بیسوی صدی میں عربی کے سب سے زیادہ نامور اور کامیاب غیرعرب ادیب تھے، ان کے یہاں جو قوت، جوش، حرارت، تاثیر ووجدان، معانی والفاظ کا سیل رواں اور ڈھلی ڈھلائی عبارت پیش کرنے کا سلیقہ ملتا ہے، وہ ان کی کاوش، کوشش، جہد وعزم، وسعت مطالعہ ورسوخ فی العلم اور ماہر فن اساتذہ کی رہنمائی کارہین منت ہے۔
(۱) تعلیم وتدریس
مولانا کی عربی تعلیم کا آغاز ۱۹۲۴ء کے اواخر میں شیخ خلیل بن محمد عرب استاذِ ادب لکھنؤ یونیورسٹی کے درس سے ہوا، یہ تعلیم ان کے اس خانگی مدرسہ میں ہوئی جو یونیورسٹی جانے سے قبل اور آنے کے بعد جاری رہتا تھا، مولانا کے ساتھ عرب صاحب کے برادرِ خورد حسین بن محمد بھی شریک درس تھے، یہی دو نفری جماعت تھی جس پر عرب صاحب کی ساری توجہ مرکوز رہا کرتی تھی، ابتدائی شُد بُد کے بعد عربی زبان کی پہلی کتاب ’’المطالعۃ العربیۃ‘‘ شروع ہوئی، عرب صاحب کا خود ساختہ نصاب تھا جس میں مصری نصاب کی جدید کتابیں ’’الطریقۃ المبتکرۃ، مدارج القراء ۃ، کلیلۃ دمنۃ، مجموعۃ من النظم والنثر للحفظ والتسمیع‘‘ وغیرہ شامل تھیں ، عرب صاحب کا انداز درس بڑا شگفتہ ہوا کرتا تھا، عملی مشق اتنی زیادہ کرائی جاتی تھی کہ اجنبی زبان کی ساری وحشت وثقالت دور معلوم ہوتی تھی، ابن المقفع