اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ نے بیسویں صدی کے آغاز میں ۱۹۱۴ء ۶؍محرم الحرام ۱۳۳۳ء میں تکیہ کلاں رائے بریلی کے ایک علمی واصیل خاندان میں آنکھیں کھولیں ، مولانا کے والد ماجد حضرت مولانا حکیم سید عبدالحئ سابق ناظم ندوۃ العلماء ہندوستان کے چوٹی کے اصحابِ فضل وکمال اور علماء عظام میں سے تھے، ان کی تصانیف میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (الاعلام بمن فی تاریخ الہند من الاعلام‘ آٹھ جلدوں میں بڑا قیمتی موسوعہ ہے، دیگر تصانیف میں ’’الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند‘‘ گل رعنا، یادِ ایام، تہذیب الاخلاق وغیرہ معروف ہیں ، ان کا انتقال فروری ۱۹۲۳ء میں ہوا، مولانا علی میاں ؒ اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
مولانا علی میاں ؒ کے برادر محترم جناب ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب سابق ناظم ندوۃ العلماء، دیوبند وندوہ کے فیض یافتہ پھر انگریزی وعصری تعلیم میں ماہر اور کامیاب ڈاکٹر اور نہایت بزرگ وباصلاحیت تھے، انہوں نے دیوبند میں حضرت شیخ الہندؒ اورو علامہ کشمیریؒ سے استفادہ کیا تھا، مولانا علی میاں ؒ کی تربیت انہوں نے ہی کی ہے، مشائخ عصر سے تعلق، دعوتی سرگرمیوں اور ادبی اشتغال میں مولانا نے انہیں کی ہدایات پر عمل کیا، انگریزی وعربی میں اُن سے باضابطہ استفادہ کیا، اپنی کتاب ’’حیاتِ عبد الحئ‘‘ میں اپنے والد ماجد کے تفصیلی تذکرہ کے بعد مولانا نے ایک باب ڈاکٹر صاحب کے تذکرہ کا بھی رکھا ہے، ڈاکٹر صاحب کا مئی ۱۹۶۱ء میں انتقال ہوا۔
مولانا کی والدہ سیدہ خیر النساء صاحبہ نہایت صالح اور مشفق خاتون تھیں ، قدرت کی طرف سے انہیں اعلیٰ شعری ذوق ملا تھا، تخلص ’’بہتر‘‘ تھا، ان کی کتابیں ’’ذائقہ‘‘ اور ’’حسن معاشرت‘‘ بہت معروف ہیں ، مولانا کی تربیت میں ان کا بڑا اہم رول رول رہا ہے، مولانا کی