مولانا کی تحریریں موجود ہیں ۔
مولانا کا عربی اسلوب پرکھنا ہم جیسوں کے بس کی بات نہیں ، عربی کے چوٹی کے ادباء نے مولانا کے اسلوب کی رفعت وپاکیزگی، بلاغت وروانی اور حلاوت وجمال کی داد دی ہے۔ علامہ عبدالعزیز میمن نے مولانا کے بارے میں یہ فرمایا کہ: ’’عربی زبان پر لکھنے کی جو قدرت مولانا علی میاں کو حاصل ہے وہ ہندوستان میں کسی کو میسر نہیں ‘‘۔
اردو ادب میں بھی مولانا کا حصہ کسی سے کم نہیں ہے، جس کا اندازہ برصغیر کے مشہور اردو ادباء کے اعتراف سے کیا جاسکتا ہے، ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے کئی بار یہ اعتراف کیا کہ مولانا اردو بڑی اچھی لکھتے ہیں ۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کھ: ’’ذاکر حسین صاحب کا کسی کی انگریزی یا اُردو کے بارے میں یہ رائے رکھنا میرے نزدیک مصنف کے لئے بڑی معتبر سند ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۱۸۰)
رابطۂ ادبِ اسلامی کا قیام اور سرگرمیاں
حضرت مولانا علی میاں ؒ نے ادب کو پیشہ اور فن کے طور پر اپنانے، محدود ومخصوص کرنے، عبارت آرائی وتزئین کے ذریعہ ایک دوسرے سے بازی لے جانے، اپنی مہارت وکمال کا سکہ بٹھاکر اپنے مادی مقاصد کی تکمیل کی ہمیشہ مخالفت کی، مولانا ایسے ادب کو صرف صنعت وفن کاری اور تقلید سمجھتے ہیں جو زور وشور، روح، جدت وندرت اور دل آویزی کے جوہر سے خالی ہوتا ہے، یہ روایتی ادب ہے جو اس وقت رائج ہے۔
اس کے مقابلہ میں ایک اور ادب ہے جو فطری، رواں ، سلیس، دل آویز اور قلب وروح کو تسخیر کرلینے والا ہے، اس ادب سے مکتبے پُر ہیں ؛ لیکن مصنوعی ادب اس لئے چھاگیا ہے کہ یہ رواں اور سلیس ادب ان افراد کا شاہ کار ہے جو ادباء کی وردی میں نہیں ہیں ، اور جنہوں نے ادب کو ذریعہ معاش اور پیشہ نہیں بنایا، اور اس کی تاریخ بھی قدیم ہے؛ کیوں کہ