حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی نظر میں عالم عربی اور عالم اسلامی کے مسائل ومشاکل
(خطرات، اثرات، تجاویز اور موقف)
عرب قومیت، ذہنی وفکری ارتداد، اشتراکیت اور استشراق
’’میں نہ عربی دنیا سے بیگانہ اور اجنبی ہوں ، نہ میری معلومات سکنڈ ہینڈ ہیں ، اور نہ میں نے عرب رہنماؤں پر تنقید کا کام اور عربوں کی زندگی کے احتساب کا فریضہ، ان کے مصائب اور ان کی ناکامیوں کے اسباب پر بحث کا سلسلہ صرف عرب واسرائیل کی اس جنگ کے موقع پر شروع کیا ہے، اور نہ میں اچانک اور بے وقت اس میدان میں آگیا ہوں ، میں اپنے کو (ایک مسلمان کے رشتہ سے بھی اور عربی ثقافت کے ناطے سے بھی) اس وسیع وعظیم عرب خاندان کا جو مراکش سے بغداد تک پھیلا ہوا ہے، ایک فرد سمجھتا ہوں ، میں اُن کے دُکھ سکھ میں شریک ہوں ، میری قسمت اُن کی قسمت سے وابستہ ہے، اُن کی عزت سے میری عزت اور ان کی ذلت سے میری ذلت ہے، میرے تخیلات کی دنیا، میری تمناؤں کا مرکز، میرے طائر روح کا حقیقی نشیمن، عرب کی محبوب سرزمین، اس کی زبان وادب اور اس کی تہذیب وثقافت رہی ہے، عربی دنیا کے اس پورے اثاثہ اور سرمایہ پر (جس کی حفاظت اور سربلندی کے لئے قومیت عربیہ کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے) میرا حق کسی طٰہ حسین، کسی عقاد، کسی احمد امین یا کسی کرد علی سے کم نہیں ، میرا خمیر اور میرا آب وگل ہندوستان کی سرزمین سے ہے، مجھے اس کا اعتراف بھی ہے، اس پر فخر بھی؛ لیکن میں نے اُردو سے زیادہ عربی زبان کو اپنے اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا، اور مجھے اقبال کے الفاظ میں یہ دعویٰ کرنے کا حق ہے کہ:
مرا ساز گرچہ ستم رسیدہ زخمہائے عجم رہا
وہ شہیدِ ذوقِ وفا ہوں کہ نوا مری عربی رہی
(میر کارواں ، از: مولانا عبداللہ عباس ندوی ۳۵۲-۳۵۳)
یہ اس مضمون کا ایک مؤثر ترین اقتباس ہے جو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی