پر بہنے لگے یا محدود مقامی حالات کا ردعمل، سیاسی غلبہ واستیلاء کی کوشش اور اسلامی حکومت کے قیام کے خالی دعوؤں تک محدود ہو، نوجوان آنکھ بند کرکے اس کا استقبال کرنے لگیں اور اس کی حمایت ومدافعت کے جوش میں اس دعوت وتحریک کے سربراہوں کے عقائد کی تحقیق کی بھی ضرورت نہ سمجھیں ، متفق علیہ اسلامی عقائد سے ان کے انحراف اور بسا اوقات ان مسلمہ عقائد سے تضاد کو بھی نظر انداز کرجائیں ۔ (اسلامی بیداری کی لہر پر ایک نظر، بقلم: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ۱۵)
(۲) دینیات کے وسیع مطالعہ کی ضرورت
اسلامی بیداری کی صحت وافادیت کے لئے دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ یہ بیداری (امکانی حد تک) قرآن وحدیث کے فہم وادراک سے یکسر عاری اور اس کی ضرورت کی منکر نہ ہو، دینی مطالعات میں کسی حد تک وسعت بھی ہو اور گہرائی بھی، یہ ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں (جن کی تعداد بیداری کی ان تحریکوں میں روز بروز بڑھتی جارہی ہے) کی ذہنی وفکری تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے، ان کے لئے صالح اور طاقت ور فکری غذا فراہم کی جائے، جو ان کی عقل وفکر کے نہاں خانوں کو منور کردے اور اس ایمان ویقین کو دوبارہ مستحکم کردے کہ اسلام ہی قیامت کی اور زندگی کے مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
(اسلامی بیداری کی لہر پر ایک نظر، بقلم: مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ۱۶-۱۷)
(۳) غیر ضروری مسائل ومشکلات سے اجتناب کی ضرورت
اسلامی دعوت کی افادیت اور نتیجہ خیزی کو باقی رکھنے کی تیسری شرط یہ ہے کہ دعوت وتحریک ایجابی (مثبت) ہو، وہ خالص سلبی بن کر نہ رہ جائے کہ حکومت یاقوت ووسائل سے مسلح افراد وعناصر سے پہلے ہی مرحلہ میں ٹکرانے لگے، اپنے لئے مسائل ومشکلات پیدا کرنے لگے، اپنی ساری قوت وصلاحیت اسی ٹکراؤ میں ضائع کردے اوراپنے بے شمار دشمن