کافی استفادہ کیا، خود مولانا نے بہت سے موقعوں پر شاہ صاحب سے علمی فائدہ اٹھایا، اپنی کتابوں کی ترتیب کے دوران بھی ہدایتیں اور مشورے لئے، شاہ صاحب تاریخ وادب کا بھی صحیح مذاق رکھتے تھے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ:
’’مختارات کی تالیف کے زمانہ میں مجھے ان کی لطافت ذوق اور حسن انتخاب کا تجربہ ہوا، مثال کے طور پر مجھے مقاماتِ بدیع الزماں میں سے ایک مقالہ کا انتخاب کرنا تھا، جو بدیع الزماں کی بہترین خصوصیات کی نمائندگی کرتا ہو اور طلبہ کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید، شاہ صاحب نے برجستہ کہا کہ ’’المقامۃ المضیریۃ‘‘ انتخاب کیجئے، بعد میں دیکھا تو اس سے زیادہ جاندار، لطیف وبیلغ نثر کا نمونہ نہ صرف مقاماتِ بدیع ہی میں نہیں ملتا؛ بلکہ اس عہد کی تحریروں میں بھی اس کا خاص امتیاز ہے‘‘۔ (پرانے چراغ ۱؍۲۶۷)
شاہ صاحب تا زندگی مولانا کے ساتھ شفقت وتعلق خاطر کا معاملہ کرتے رہے۔
r مولانا حکیم سید مثنیٰ حسن امروہوی ندویؒ:
حکیم صاحب سے مولانا کا گہرا تعلق اس وقت شروع ہوا، جب ۱۹۳۹ء میں ’’سیرتِ سید احمد شہید‘‘ پڑھ کر حکیم صاحب نے ایک بہت ہی محبت آمیز خط لکھا، اور مصنف کو مبارک باد بھی دی، کچھ خامیوں پر گرفت بھی کی، جس کا اعتراف دوسرے ایڈیشن کے مقدمہ میں ہے، اس کے بعد مولانا نے امروہہ جاکر حکیم صاحب سے ملاقات کی، حکیم صاحب نے مولانا کی آمد پر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔
حکیم صاحب اردو ووعربی دونوں کے بلند؛ لیکن گم نام ادباء میں تھے، اسی لئے مولانا اپنی ساری تصنیفات ورسائل حکیم صاحب کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے اور ان کے تبصروں سے بہت فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ حکیم صاحب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ کے بہت مداح تھے، خصوصاً اس کے مضمون ’’محمد رسول اللّٰہ روح العالم العربی‘‘ کو کتاب کا سب سے زیادہ جاندار حصہ مانتے تھے، جو ان کی ژرف نگاہی