رہے، ہمیشہ مسلمانوں سے متعلق تمام مسائل کا بڑا ناقدانہ اور ہر موقع پر ان کی معتدل آرا اور افکار سے بڑا فائدہ اٹھایا گیا۔
(۴) تاریخ اقوام وملل سے گہری واقفیت اور احاطہ
مولانا کی بیشتر تحریروں میں تاریخی واقعات، ان سے عبرت وموعظت کے نتائج اخذ کرنے اور ماضی کے گمراہ کن اور تباہ کن امور سے دور رکھنے اور ڈرانے کے مضامین ملتے ہیں ، یہ چیز ان کی مقبول ترین معرکۃ الآراء تصنیف ’’ماذا خسر العالم‘‘ میں بڑی نمایاں ہے، مولانا کے بقول وہ شروع سے تاریخ کے طالب علم رہے ہیں ، اور ان کی اکثر تحریریں تاریخی موضوعات سے متعلق رہیں ، انہیں اسلام کی سیاسی، فکری، علمی اور روحانی تاریخ کے ساتھ ہی یورپ کے قدیم ترین فلسفوں اور مذاہب وادیان واقوام کی تاریخ کا گہرا علم اور مطالعہ تھا۔
(واقع العالم الاسلامی، مصنفہ: مولانا علی میاں ؒ)
اسی لئے تاریخی استدلالات کا عنصر مولانا کی تحریروں اور دعوتی سرگرمیوں میں خوب ملتا ہے، جو ان کے وسیع وعمیق مطالعہ قرآن اور کتاب اللہ سے قوتِ اخذ واقتباس کا بین ثبوت ہے۔
(۵) مغربی تہذیب کے بارے میں مولانا کا معتدل موقف
مولانا نے اپنی زندگی میں ’’خذ ما صفا ودع ما کدر‘‘ کا اصول اپنائے رکھا، صاف ستھری چیزیں اخذ کرنے اور آلودہ وبیکار چیزوں کو چھوڑنے کی مولانا نے ہمیشہ دعوت دی، مغربی تہذیب کے مفاسد ومفاتن پر بڑی سخت تنقید فرمائی اور اس کی اچھی چیزوں کو اخذ کرنے کی دعوت دی، مولانا اعتدال کے داعی اور اس پر عامل تھے، انہوں نے مغربی تہذیب سے بالکلیہ اجتناب یا مکمل تقلید کی دعوت کبھی نہیں دی؛ بلکہ اس افراد وتفریط سے ہمیشہ گریزاں اور مخالف رہے، انہوں نے اہل مغرب سے ہمیشہ جاہلیت سے اسلام کی طرف آنے کی بات کہی اور نئی پود کو مغربی تہذیب کے سحر آفریں شرور ومفاسد سے دور رہنے کی تلقین کی۔