صفات سے یہ کتاب متصف ہے، ایسا امتیاز کم تصانیف میں ملے گا، یہ خیال دل میں آنے لگتا ہے کہ اگر آپ برابر ایسے سفر پر رہیں تو مسلمانوں اور ملت پر بڑا احسان ہوگا‘‘۔
(پرانے چراغ۲؍۱۸۳ -۱۸۴مختصراً)
۱۹۷۵ء میں پرانے چراغ کا پہلا حصہ پڑھ کر رشید صاحب نے اسے مولانا کی اول درجہ کی تصنیف قرار دیا، ندوۃ العلماء کے جشن تعلیمی منعقدہ ۱۹۷۵ء میں رشید صاحب شریک نہ ہوسکے، مولانا کا خطبۂ استقبالیہ انہوں نے بعد میں پڑھا تو اس کے بارے میں تحریر فرمایا:
’’آپ کا خطبۂ استقبالیہ اس تقریب کا سب سے قیمتی اور دل کش تحفہ ہے، ’’برنگ اصحاب صورت را ببو ارباب معنی را‘‘ اس کی خوبیاں خلاف توقع نہیں ؛ بلکہ پورے طور پر متوقع تھیں ؛ اس لئے کہ خطبہ آپ سے منسوب تھا‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۱۸۷)
مولانا کی کتاب ’’روائع اقبال‘‘ کا ترجمہ ’’نقوشِ اقبال‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تو رشید صاحب نے اس پر ایک بڑا ہی وقیع مقدمہ لکھا، اس کے آخر میں پورے کلامِ اقبال کے عربی ترجمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی تحریر فرمایا:
’’سید صاحب کو دین سے جو شغف ہے، عربی زبان وادب کے جیسے مزاج داں ہیں ممالک عربیہ اسلامیہ میں ان کا جیسا اعتبار ہے، اقبال سے جیسی عقیدت اور ان کے کلام میں جو درک وبصیرت ہے، ان کا تقاضا ہے کہ موصوف اس منصب کی ذمہ داری قبول فرمائیں ، یہ ایسا کام ہے جو ہر روز ہر شخص کے سپرد نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (نقوشِ اقبال ۲۶ طبع ششم)
ان تفصیلات سے رشید صاحب کے مولانا سے غایتِ تعلق وتأثر کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
r ماہر القادری صاحب :
ماہر صاحب سے مولانا کا تعارف ان کے ماہنامہ ’’فاران‘‘ کے ذریعہ ہوا، ۱۹۵۶ء میں انہوں نے فاران کا ’’سیرت نمبر‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا، تو مولانا سے مضمون کی فرمائش کی، مولانا نے ایک مضمون ’’سیرتِ محمدی دعاؤں کے آئینہ میں ‘‘ کے عنوان سے سفر کی حالت میں قلم برداشتہ لکھوادیا، یہ مضمون فاران میں شائع ہوا، اس کے بعد کئی بار مستقل کتابچہ کی شکل