جلاس میں مولانا کا خطبہ استقبالیہ بھی انہوں نے ہی پڑھا، مولانا عمران صاحب کی حیات میں مولانا علی میاں ؒ جب بھی بھوپال تشریف لے گئے، مولانا عمران خاں صاحب ہی کے مدعو اور مہمان رہے، حضرت مولانا شاہ محمد یعقوب مجددیؒ سے تعلق وتعارف بھی انہیں کے واسطہ سے ہوا، ۱۹۸۵ء میں انہوں نے بھوپال میں علامہ سید سلیمان ندویؒ پر ایک کامیاب سیمینار منعقد کیا تو اس کی صدارت کے لئے مولانا ہی کا انتخاب کیا جو ان کی محبت وتعلق کی دلیل ہے۔
r مولانا محمد منظور نعمانیؒ:
مولانا محمد منظور نعمانیؒ کو مولانا نے پہلی بار امام اہل سنت مولانا عبدالشکور فاروقیؒ کے ادارہ دارالمبلغین میں دیکھا، پھر تعارف اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، اصل اور گہرا تعلق ۱۹۳۹ء میں ہوا جب ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ پڑھنے کے بعد مولانا نعمانی نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا کہ:
’’یہاں جو وقت ڈاک کا ہوتا ہے وہی کھانے کا ہوتا ہے، آپ کی کتاب آئی تو میں اس میں اتنا مشغول ہوگیا کہ میرے لئے کھانا کھانا مشکل ہوگیا، میں اس سے بہت متأثر ہوا‘‘۔ (پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ لکھنؤ ۱۰؍مئی ۱۹۹۷ء ص:۸)
مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ربط اور علیحدگی، پھر مولانا محمد الیاس صاحبؒ کے ساتھ تبلیغی سرگرمیاں ، مولانا رائے پوریؒ سے استرشاد، مجلس مشاورت کی تشکیل، ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی اور دارالعلوم دیوبندکی مجلس شوریٰ کے جلسوں اور مختلف دعوتی اسفار میں ان دونوں رفقاء کی بڑی معیت رہی، رابطہ عالم اسلامی کے قیام کے بعد مولانا نعمانی کو بھی حضرت مولانا علی میاں ؒ کے اشارہ پر رابطہ کا رکن تاسیسی بنایا گیا، اس کے بعد حجاز کے اسفار میں بھی پوری رفاقت رہی، بہت سے معاملات ومسائل میں ان کی وقیع اور حکمت آمیز آراء اور مشوروں پر مولانا نے عمل کیا اور اس کا فائدہ محسوس ہوا۔