حضرت مولانا علی میاں ؒ چند امتیازات وخصوصیات
حضرت مولانا علی میاں ؒ پیدائشی عظیم تھے پھر ان کے جہد مسلسل اور سعی پیہم نے ان کی عظمت میں چار چاند لگادئے تھے، عرب شعراء انسان کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں :
إں الفتیٰ من یقول ہا أنذا
لیس الفتیٰ من یقول کان أبی
جوان وبہادر تو وہ ہے جو اپنے آپ پر اعتماد رکھتا ہو، بہادر وجوان وہ نہیں ہوسکتا جو اپنے آباء واجداد کے مکارم سناتا رہے اور انہیں پر اتراتا رہے اور خود کچھ نہ کرے۔
حضرت مولانا علی میاں ؒ میں حسب ونسب کی شرافت کے ساتھ علم وادب کا کمال بھی جمع ہوگیا تھا، یہ ایسا امتیاز ہے کہ اس کے سامنے سارے امتیازات ہیچ ہوجاتے ہیں ۔
مولانا کا ایک قابل قدر اور قابل ذکر امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے جدید وقدیم دونوں کو نہایت اعتدال اور توازن کے ساتھ اپنے اندر سمولیا تھا، دونوں جگہ سے لعل وجواہر منتخب کرلئے تھے اور ذرّات وفضلات چھوڑ دئے تھے، ان کا اعلان تھا کہ:
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
قدیم صالح اور جدید نافع کا یہ حسین ترین امتزاج (جس کو اخذ کرنے کی ہر حلقہ وطبقہ