جنازہ پڑھانے کی بھی وصیت کی، اور اسی کے مطابق عمل بھی ہوا۔
مولانا علی میاں ؒ سے ان کے غایت تعلق کا اندازہ اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا نے ان کے بعض ایسے معاملوں میں دخل دیا جس میں انہیں اپنے عزیزوں اور خوردوں سے شکوہ تھا اور مقاطعہ کی نوبت آگئی تھی، مولانا دریاآبادی نے ایثار سے کام لیتے ہوئے مولانا علی میاں ؒ کی بات مان لی اور نزاع ختم ہوگیا، قادیانیت کے مسئلہ میں بھی مولانا دریاآبادی کے موقف پر نظر ثانی کرنے کا مولانا علی میاں ؒ نے مشورہ دیا، جس سے انہوں نے اتفاق تونہیں کیا؛ لیکن ان کا تعلق وفات ۱۹۷۷ء تک باقی رہا اور شفقت فرماتے رہے۔
r پروفیسر رشید احمد صدیقیؒ:
رشید صاحب کو پہلی بار مولانا نے ۱۹۳۶ء میں اپنے سفر علی گڈھ کے موقع پر دیکھا، اصل تعلق تو اس وقت شروع ہوا جب مولانا نے ۱۹۵۵ء میں کسی ذریعہ سے شہرۂ آفاق کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘ رشید صاحب کے پاس بھیجی، رشید صاحب نے اس کے جواب میں ایک مکتوب تحریر فرمایا کہ:
’’سید سلیمان ندوی صاحب مرحوم کی تصانیف کے بعد آپ کی اس کتاب پر پہلی مرتبہ نظر پڑی جو میری نظر میں اردو کی مذہبی اور علمی تصانیف میں اعلیٰ پایہ رکھتی ہے‘‘۔
(پرانے چراغ۲؍۱۷۲ مختصراً)
پھر مولانا نے اپنی کتاب ’’تذکرۂ مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی‘‘ بھیجی، اس کے مطالعہ سے رشید صاحب بے حد متأثر ہوئے۔ ’’کاروانِ مدینہ‘‘ کے مطالعہ کے بعد انہوں نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر کیا:
’’کاروانِ مدینہ کا ایک نسخہ ۳-۴؍دن ہوئے موصول ہوا تھا، خوش اور شکر گذار ہوا، پڑھتا گیا اور رائے قائم کرتا گیا کہ یہ تقریر سب سے اچھی ہوگی، دوسری کا مطالعہ کیا تو معلوم