مولانا نے ’’أزمۃ العالم الإسلامی الحقیقۃ‘‘ (عالم اسلام کا حقیقی بحران) کے عنوان سے بڑا روح پرور خطاب فرمایا، رابطۃ الجامعات کے متعدد پروگراموں میں مولانا نے شرکت کی ہے۔
شرقِ اردن کے علمی وتحقیقی ادارہ ’’مؤسسۃ آل البیت‘‘ کے بھي مولانا ۱۹۸۳ء میں رکن منتخب ہوئے، اس ادارہ کے ایک اہم شعبہ ’’مجمع بحوث الحضارۃ الإسلامیۃ‘‘ (اسلامی تہذیب وتمدن اکیڈمی) کی کانفرنسوں میں مولانا بارہا اردن تشریف لے گئے، اپریل ۱۹۸۴ء میں اکیڈمی کی تیسری سالانہ کانفرنس کے موقع پر مولانا کو باصرار بلایا گیا، داعیوں میں سرفہرست اس وقت کے ولی عہد سلطنت امیر حسن بن طلال تھے، مولانا اس میں شریک ہوئے، اور امیر کی خواہش پر اپنے خطاب میں ہندوستان کی اسلامی تاریخ کامختصر خاکہ پیش کیا اور ہندوستان میں مسلمانوں کے تاریخی کردار کو واضح کیا۔ ان اداروں کے علاوہ مولانا متعدد عرب اداروں اور تحریکات کے رکن تھے، جن میں قاہرہ کی ’’مجمع اللغۃ العربیۃ‘‘ اور ’’المجلس الأعلیٰ العالمی للدعوۃ الإسلامیۃ‘‘ بی شامل ہیں ۔
علماء اور ادباء
عالم عرب کے معاصر علماء وادباء میں سے تقریباً سبھی سے مولانا کا ربط رہا اور مولانا کے خلوص، فکر اسلامی، عالی دماغی، علمی وادبی صلاحیت اور فضل وتقویٰ سے وہ سب متأثر ومعترف بھی رہے اور گرویدہ ہوگئے، مولانا نے ۱۹۵۱ء میں اپنے شرقِ اوسط کے طویل سفر میں متعدد عرب علماء، ادباء، دانشور، داعیوں اور مفکرین سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کیا تھا، ڈاکٹر احمد امین سے بھی مولانا نے کئی بار ملاقات کی، گفتگو ہوئی، شریعت اسلامی اور تاریخ اسلام کے سلسلہ میں ان کے بعض خیالات کی مولانا نے مخالفت بھی کی۔
مصر کے مشہور ادیب وعالم اور مجاہد سید قطب شہید سے بھی مولانا کا گہرا تعلق تھا، سید