سید صاحب نے بارہا مولانا کے بارے میں اس طرح کے بلند الفاظ فرمائے۔
مولاناسید صاحب کی جامعیت، علوم ومضامین کے تنوع اور طبیعت کی شرافت ومروت جیسے نمایاں اوصاف سے بے حد متأثر تھے، اور انہیں کا نقش خود مولانا کے یہاں بھی خوب خوب ملتا ہے، ایک استاذ وشاگرد کے باہمی ارتباط وتعلق کی اس سے بڑھ کر اور کونسی مثال ہوسکتی ہے؟ یہ ان جید الاستعداد، فاضل، تقویٰ شعار اور بلند پایہ اساتذۂ کرام کا ذکر تھا جن کے سامنے مولانا نے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے اور علم وفن کے لالہ وگل چنے ہیں ۔
تلامذہ
تعلم وتربیت ہی کا کام مولانا زندگی بھر کرتے رہے اور پوری ایک ٹیم تیار کردی، ان کے تلامذہ ومنتسبین کی فہرست بہت طویل ہے، جس کا احاطہ بہت مشکل ہے، چند اہم نام یہ ہیں :
(۱) مولانا محمد معین اللہ ندوی: (متوفی ۱۹۹۹ء) سابق نائب ناظم ندوۃ العلماء اور تمام تبلیغی واصلاحی سرگرمیوں اور ندوۃ العلماء کے انتظامی امور میں مولانا کے دست راست اور معتمد علیہ۔
(۲) مولانا مجیب اللہ ندوی: ناظم جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ ومدیر ماہنامہ ’’الرشاد‘‘۔
(۳) ڈاکٹر عبدالحلیم ندوی: مصنف تاریخ ادب عربی وسابق استاذ ادارہ لسانیات انگریزی وعالمی حیدرآباد وسابق صدر شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی۔
(۴) ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی: معتمد تعلیم ندوۃ العلماء وسابق استاذ جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ اورمتعدد کتابوں کے مؤلف۔
(۵) مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی: استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء وجانشین وناظم ندوۃ العلماء صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، نائب صدر وجنرل سکریٹری عالمی رابطہ ادب اسلامی جنوب مشرق ایشیاء، صدر دینی تعلیمی کونسل، جریدہ الرائد کے رئیس عام، حضرت مولاناؒ کے خواہر زادۂ عزیز اور رفیق سفر وحضر ومجاز بیعت نیز متعدد کتابوں کے مؤلف۔