حرفِ آخر
حضرت مولانا علی میاں ؒ پورے عالم اسلام میں متفق علیہ اور مرکزی شخصیت کے حامل تھے، ان کی وجہ سے امت کے افلاس کا احساس ختم ہوتا تھا، ان کا نفس وجود ہی نہ جانے کتنے فتنوں کے لئے آڑ بنا ہوا تھا، علمی رسوخ وصلابت، سوعت مطالعہ گہرائی وگیرائی، فکری اعتدال وتوازن، اجتماعی وملی بے لوث خدمات اور جرأت وبے باکی کے ساتھ باطل کا مقابلہ واستیصال کی کوشش وکاوش میں حضرت مولانا درۂ روزگار، فخر زمانہ اور قابل صد رشک تھے، وہ اپنی خصوصیات وصفات میں منفرد تھے۔
۳۱؍دسبر ۱۹۹۹ء (۲۲؍رمضان المبارک ۱۴۲۱ھ) جمعہ کا دن عالم اسلام کے لئے بڑا المناک ثابت ہوا، جب اس صدی کا یہ قابل فخر اسنان اس دنیا سے رخصت ہوا، اقبال نے مردِ مؤمن کی شناخت بتائی ہے:
نشان مردِ مؤمن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
حضرت مولانا علی میاں ؒ کی موت بھی ایسی ہوئی کہ دنیا رشک کرتی رہ گئی، قرآنِ کریم کی سورۂ یٰس (جسے قلب القرآن کہا گیا ہے) کی تلاوت کرتے ہوئے وہ اپنے مالک کے حضور حاضر ہوئے، گویا:
من نیز حاضر می شوم، تصویر جاناں در بغل
اور رمضان المبارک کی بابرکت رات میں آسودۂ خواب ہوئے: