اسلامی بیداری میں حضرت مولانا علی میاں ؒ کی خدمات وخیالات
اسلامی بیداری (صہوۃ اسلامیۃ) کی کوششیں ایک لمبے عرصہ سے عالم عرب اور عالم اسلام میں ہورہی ہیں ، ایک طویل غفلت اور بدمستی کے بعد یہ کام شروع ہوپایا ہے، ایک وسیع وعریض مندت ایسی بھی گذری ہے اور اس کے اثرات آج بھی ہیں ، جس میں دین ومذہب اور دین دار حلقوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے، دین کو پسماندگی اور جمود کا داعی قرار دے کر سیکولر افکار اور مغرب کے سارے اچھے برے مناہج، طریقوں اور وسائل کو اختیار کرنے کی دعوت بڑے جوش وخروش سے دی جاتی رہی ہے۔ مغربیت کے ان پجاریوں اور سیکولرزم کے ان غلاموں کے مقابلہ میں دین دار، شعائر اسلام کا محافظ اور داعئ اسلام طبقہ نظر آتا ہے؛ لیکن اس میں فکری جمود، باہمی اختلاف اور رسہ کشی اور صرف زبانی دعوے اور جذبات (جن کو عملی حرکت ودعوت میں بدلنے کی ضرورت تھی) کا کافی عمل دخل پایا جارہا تھا، پھر مغربی تہذیب کے سلسلہ میں اُن کا موقف انتہائی سلبی اور مکمل دوری وبیزاری کا تھا، جو کسی بھی طرح اعتدال کا موقف نہیں ہوسکتا، اور جس کے خطرات کی تفصیلی نشان دہی گذشتہ مضمون میں آچکی ہے۔
ایسے ماحول میں اسلامی بیداری کی مہم شروع ہوئی جو دراصل ان افراد کی فکر پر ایک زبردست تازیانہ ثابت ہوئی، جو یہ باور کئے بیٹھے تھے کہ اسلام اب آخری سانس لے رہا ہے، اور دم توڑنے کو ہے۔ اسلامی بیداری کی یہ تحریک پورے عالم میں مسلمانوں کے مسائل کا جائزہ لینے اور سلجھانے کی کوششیں انجام دیتی رہی اور مشرق ومغرب ہر جگہ اس کے اچھے