چہارم پڑھ کر تو یہ سنگ دل بھی اپنی آنکھوں کو خشک نہ رکھ سکا، جو ہمیشہ تری کو ترسا کرتی ہیں ‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۱۲۴)
اس کے بعد ۱۹۶۸ء میں دوسری کتاب ’’صحبتے بااہل دل‘‘ پڑھ کر بھی بہت متأثر ہوئے، مولانا کے متعلق ان کی رائے یہ تھی کہ انہیں عالم عربی کو اصلاً اپنی دعوت کا موضوع اور اپنی صلاحیتوں کی جولان گاہ بنالینی چاہئے، وہ مولانا کو ہندوستان میں (Misfit) کہا کرتے تھے، ندوۃ العلماء کے معاملات میں ان کا نقطہ نظر مولانا سے باربار مختلف رہا؛ لیکن آخری ایام میں شفقت ومحبت کا بے حد غلبہ رہا، جنوری ۱۹۷۶ء میں ان کا انتقال ہوا۔
بلند پایہ مشاہیر اور اہل کمال
r نواب صدریار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانیؒ:
حضرت مولانا نے نواب صاحب کو پہلی بار ۱۹۲۵ء میں دس سال کی عمر میں ندوۃ العلماء کے سالانہ اجلاس میں دیکھا، اس کے بعد کئی بار زیارت وملاقات ہوئی، مولانا ان کے حسن وجمال، رکھ رکھاؤ، وقار ووجاہت اور جوش خطابت وتاریخ نگاری سے بے حد متأثر ہوئے، پھر ان کی کتاب ’’علماء سلف‘‘ سے بہت استفادہ کیا اور اسے اپنی محسن کتابوں میں شمار کیا، اس کتاب نے مولانا کے اندر علم کا شوق اور طلب پیدا کی، مولانا نے نواب صاحب کو ہندوستان کے آخری فارسی داں ادیبوں میں شمار کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں :
’’میں نے ان جیسا متضاد صفات کا جامع اور متنوع شخصیت کا حامل نہیں دیکھا‘‘۔
(پرانے چراغ ۲؍۲۷ مختصراً)
شروع ہی سے نواب صاحب کی شفقتیں مولانا پر رہیں ، ۱۹۲۶ء میں علی گڈھ میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جبلی کے موقع پر مولانا علی گڈھ تشریف لے گئے، تو نواب صاحب کے یہاں قیام نہیں کیا، نواب صاحب کو علم ہوا تو غصہ کا اظہار کیا اور فوراً اپنے گھر پر بلالیا، یہ ان