’’بلاتصنع اور بلامبالغہ عرض کرتا ہوں کہ آپ کے تعلق کو اپنے لئے وسیلہ نجات سمجھتا ہوں ، اپنے لئے میں آپ سے دعاؤں کا سخت محتاج اور متمنی ہوں اور آپ کے لئے دعا کرنا اپنا فریضہ اور آپ کا اہم حق سمجھتا ہوں ‘‘۔
(حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی اکابر ومشاہیر امت کی نظر میں ، از: ممشاد علی قاسمی ۱۳۵)
مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران حضرت شیخ کا مشفقانہ رویہ بڑھتا گیا، ۱۹۸۰ء میں جب شاہ فیصل ایوارڈ کا اعلان مولانا کے لئے ہوا تو حضرت شیخ نے مدینہ سے مبارک باد بھیجی، جس کا مقصد مولانا کو یہ ایوارڈ قبول کرنے پر آمادہ کرنا تھا۔
حضرت مولانا کی کتاب ’’نئی دنیا امریکہ میں صاف صاف باتیں ‘‘ (سفر امریکہ کی تقریروں کا مجموعہ) طبع ہوکر آئی تو حضرت شیخ نے اسے پڑھواکر سنا اور فوراً مولانا سے اپنے مکتوب میں اس کے عربی اور انگریزی ترجمہ کا تقاضا کیا، اور خود اس کتاب کے دو ہزار نسخے خریدکر تقسیم کرائے، اس کے علاوہ مولانا کی متعدد تصنیفات حضرت شیخ نے سنیں اور پڑھیں اور مولانا کو مبارک باد دی، ان میں ’’تکملہ نزہۃ الخواطر، ارکانِ اربعہ، تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ وغیرہ سرفہرست ہیں ، مئی ۱۹۸۲ء میں شیخ کا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔
r حضرت شاہ محمد یعقوب مجددی صاحبؒ:
حضرت شیخ الحدیث کے بعد مولانا کو مشائخ عصر میں سب سے زیادہ ذہنی مناسبت بھوپال کے حضرت شاہ محمد یعقوب مجددی سے تھی، جو ۱۹۳۶ء سے چلی آرہی تھی، بھوپال کے تبلیغی اجتماعات میں ہر سال حاضری کے موقع پر حضرت مولانا شاہ صاحب کی خدمت میں جایا کرتے تھے، شاہ صاحب کے دل میں مولانا کے لئے بڑا احترام اور محبت تھی، تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ شاہ صاحب مولانا کو لینے کے لئے اسٹیشن تشریف لے جاتے تھے، ایک بار ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے شاہ صاحب آدھی سے زیادہ رات اسٹیشن ہی پر گذارنی پڑی، مولانا نے واپسی کے بعد ایک معذرت نامہ تحریر فرمایا، جس کے جواب میں شاہ صاحب نے لکھا: