حق گوئی کی پاداش میں مولانا کو وزارتِ خارجہ دہلی میں طلب کرکے اس سلسلہ میں پوچھ تاچھ بھی ہوئی، مگر مولانا نے پوری صفائی سے اپنے موقف کی وضاحت کی اور اس پر قائم ودائم رہنے کے عزم بالجزم اور جذبہ بے پناہ کا اظہار بھی کیا، خواہ اس کے نتیجہ میں انہیں باہر جانے کی سہولتوں سے محروم کردیا جائے، اسی طرح مدیر ’’البعث الاسلامی‘‘ مولانا محمد الحسنی مرحوم کو بھی بلاکر موقف تبدیل کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا، مگر انہوں نے صاف انکار کردیا۔
۵؍جون ۱۹۶۷ء کو مصری شکست فاش اور اسرائیل کی فتح کے نتیجہ میں بیت المقدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارہ کی پوری عرب پٹی پر اسرائیلی تسلط کے سنگین حادثہ نے طویل وعریض عالم اسلام کی بے بسی اور رسوائی کا نقشہ پیش کردیا اور عرب قومیت کے نظریہ کی گمراہی اور اس کا فساد کھل کر سامنے آیا، اس حادیثہ کے بعد مولانا کا ایک رسالہ ’’کارثۃ العالم العربی واسبابہا الحقیقۃ‘‘ شائع ہوا، جس میں اس شکست وریخت کے اسباب اور عربوں کی بنیادی خامیوں اور کمزوریوں کا بے لاگ جائزہ اور دعوتِ اصلاح ہے۔ اس کے علاوہ ’’ردّۃ ولا ابابکر لہا‘‘ (ارتداد ہے مگر کوئی ابوبکر نہیں ) ’’الفتح للعرب المسلمین‘‘ (فتح وکامرانی مسلمان عربوں ہی کا مقدر ہے) ’’إغارۃ التتار علی العالم الاسلامی وظہور معجزۃ الاسلام‘‘ (عالم اسلام پر تاتاریوں کا حملہ اور اسلام کے معجزہ کا ظہور) ’’کیف دخل العرب التاریخ‘‘ (عرب تاریخ میں نمایاں کیسے ہوئے؟) وغیرہ متعدد رسائل مولانا نے عربوں کو اسی انحراف سے بچانے کے لئے لکھے ہیں ، یہ ایک طوفان تھا جس کا مقابلہ مولانا نے شدومد سے کیا شاید کسی اور نے کیا ہو، اسی کا نتیجہ تھا کہ عرب ممالک میں اس طوفان کو روکا جاسکا اور مرورِ ایام سے قومیت کا یہ نعرہ بے اثر اور کمزور ہوتا گیا۔ واللّٰہ علیٰ کل شیئٍ قدیر۔
مسئلہ فلسطین
فلسطین پر یہود کے ناپاک قبضہ اور عربوں کی ہزیمت نے مولانا کے دلِ درمند کو جو