زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
حضرت مولانا علی میاں ؒ کے بارے میں مشائخ، اہل کمال اور معاصرین کی کچھ آراء کا ذکر پیچھے کئی جگہ آچکا ہے، اس سے حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ اللہ نے ان کو مقامِ محبوبیت سے نوازا تھا، اور اسی کا ذکر اس حدیث میں ہے جس میں فرمایا گیا:
إن اللّٰہ إذا أحب عبداً دعا جبرئیل فقال: إنی أحب فلاناً فأحبہ، قال: فیحبہ جبرئیل ثم ینادی فی السماء، فیقول: إن اللّٰہ یحب فلاناً فأحبوہ، فیحبہ أہل السماء ثم یوضع لہ القبول فی الأرض۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الحب فی اللّٰہ ومن اللّٰہ)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلاکر فرماتا ہے کہ میں فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں ، تم بھی اس سے محبت کرو، پھر جبرئیل اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ اپنے فلاں بندہ سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان کے فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر پوری روئے زمین میں اس کو مقبول بنادیا جاتا ہے۔
یہاں ہم مزید کچھ آراء اور تأثرات نقل کررہے ہیں :
میرا اپنے بارے میں اعتماد متزلزل ہوگیا تھا؛ لیکن برادرم ابوالحسن! جب میں نے آپ کی کتاب ’’الطریق الی المدینۃ‘‘ کو پڑھا تو مآں نے محسوس کیا کہ شوق میرے اندر پھر انگڑائی لینے لگا ہے، اور میرے سینہ میں پھر وہی تبش ہے، اس طرح پھر مجھے اطمینان ہوا کہ میرا دل جوہر محبت سے بالکل خالی نہیں ہوا ہے؛ لیکن افکارِ زمانہ اور وقت نے اس جوہر کو گرد