میں بڑا کام لے سکتا ہوں ، ان کی اس تلقین سے میرے اس خیال میں تزلزل پیدا ہوگیا اور میں اس غلطی سے بچ گیا‘‘۔ (پرانے چراغ ۲؍۲۹۵-۲۹۶ مختصراً)
r مولانا محمد عمران خاں ندویؒ:
مولانا محمد عمران خاں صاحب سے حضرت مولانا کا اصل ربط وتعلق اس وقت شروع ہوا، جب وہ ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خاں ٹونکیؒ کے درس حدیث میں شرکت ورفاقت ہوئی، اس تعلیمی زمانہ میں مولانا کو ان کی صلاحیتوں ، انتظامی مناسبت اور انضباط اوقات کا علم ہوا، ۱۹۳۴ء میں مولانا عمران خاں صاحب کو ندوۃ العلماء کے دفتری انتظام کا ذمہ دار نامزد کیا گیا، ندوۃ العلماء ان دنوں مالی لحاظ سے بڑا کمزور تھا، اسی کے پیش نظر فراہمئ مالیہ کے لئے مئی ۱۹۳۷ء میں مدراس کا ایک سفر حضرت مولانا حید حسن خاں ٹونکیؒ کی قیادت میں حضرت مولانا علی میاں ؒ، مولانا عبد السلام قدوائیؒ اور مولانا عمران خاں صاحبؒ کا ہوا، اس سفر کے آغاز میں مولانا عمران خاں صاحب کی تحریک سے یہ وفد بھوپال بھی گیا، اس کے بعد متعدد اسفار میں مولانا علی میاں ؒ اور مولانا عمران خاں صاحبؒ کی رفاقت رہی اور سفر میں ہر موقع پر مولانا کو یہ احساس ہوا کہ مولانا عمران خاں صاحب کے ساتھ سفر میں گھر جیسا آرام ملتا ہے۔ ۱۹۳۷ء کے وسط ہی میں مولانا عمران خاں صاحب کے لئے مصر جاکر جامعہ ازہر سے استفادہ کے لئے ایک وظیفہ کی پیش کش ہوئی تھی، حضرت مولانا علی میاں ؒ کی رائے یہ تھی کہ وہ اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں ؛ لیکن مولانا عمران صاحب نے اس سلسلہ میں اپنے والد صاحب کے تردد کا ذکر کیا، چناں چہ مولانا نے بھوپال کا سفر کیا اور ان کے والد محترم کو اس موقع سے استفادہ کی اہمیت سمجھائی، جس سے ان کو شرح صدر ہوا اور مولانا عمران خاں صاحبؒ کو اجازت مل گئی۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں وہ قاہرہ گئے، وہاں سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا، مولانا نے لکھا ہے کہ: