حضرت مولانا علی میاں ؒ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء
تحریک ندوۃ العلماء نے جدت وقدامت، رسوخِ عقیدہ اور عصری تقاضوں دین ودنیا اور قدیم صالح وجدید نافع کے درمیان جیسا توازن واعتدال اور خوش گوار امتزاج قائم رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، اس نے اپنے ان اساسی مقاصد کی جس ہوش مندی اور بیدار مغزی، ثبات واستقامت اور حسن وخوبی کے ساتھ خدمت کی، وہ عالم اسلام کی تاریخ کا ایک یادگار اور شان دار باب ہے، جسے اسلامی تعلیم وثقافت کی تاریخ میں کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے دینی علوم کے پہلو بہ پہلو عصری علوم سے استفادہ، تصنیف وصحافت، عصری درس گاہوں کی مناسب رفاقت، عالم اسلام وعالم عرب سے اٹوٹ اور پائیدار علمی وثقافتی روابط اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں جو بے مثال نقوش قائم کئے ہیں ، وہ ہمارا سرمایۂ افتخار واعزاز اور عالم اسلام کے لئے قابل تقلید وتائید ہیں ، رفع نزاع باہمی اور اتحاد بین المسلمین کے میدان میں یہ تحریک ہمیشہ تیز گام اور سبک رفتار رہی ہے، تحریک ندوہ کا سب سے بڑا کارنامہ تعلیمی وثقافتی میدان میں رونما ہوا، وہ یہ کہ اس نے اپنی روشن دماغی، عالی فکری، حالات کی نباضی اور مزاج شناسی کے جوہر گراں مایہ سے نصاب ونظام تعلیم ودرس میں مناسب تبدیلیوں کا سلسلہ مسلسل اور مستقل جاری رکھا اور اسے خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش میں لگی رہی۔ (تاریخ ندوہ جلد ۲، ماخوذ از: دیباچہ)