حضرت مولانا کی تحریروں اور افکار کا بغور جائزہ لینے سے مولانا کا ایک واضح اور معتدل دعوتی منہج سامنے آتا ہے، میں اپنے مختصر اور محدود مطالعہ کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس منہج کی اساسیات میں مندرجہ ذیل عناصر شامل ہیں :
(۱) کتاب وسنت پر پورا اعتماد وانحصار
علوم قرآن وتفسیر مولانا کا پسندیدہ مضمون تھا، اس پر مولانا نے بڑی محنت فرمائی، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے پاس جاکر تفسیر میں تخصص کیا اور بڑی گہرائی سے قرآن کا مطالعہ فرمایا تھا۔ حدیث نبوی سے بھی مولانا کو بڑا شغف تھا، ندوۃ العلماء کے شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن خاں ٹونکیؒ اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے مولانا نے علم حدیث حاصل کیا تھا، مولانا کی تمام تصنیفات اور دعوتی سرگرمیوں میں قرآن وحدیث سے شغف، اعتماد اور اخذ واقتباس بے حد نمایاں نظر آتا ہے، کتاب وسنت سے مولانا کو کمالِ ایمان، توانائی اور روحانیت وبرکت جیسی اہم نعمتیں نصیب ہوئیں ۔
(۲) مصلحین ومجددین کے طریقۂ کار کی پابندی
ہم ذکر کرآئے ہیں کہ مجددین نے جو حکیمانہ، تدریجی اور متوازن طریقۂ دعوت اپنایا تھا، خاص طور سے حضرت مجدد الف ثانیؒ نے جو اسلوب اختیار فرمایا تھا، مولانا ا س کے بڑے مداح اور مؤید تھے، یہ اسلوب بھی اصلاً کتاب وسنت سے مستفاد ہے اور اس میں افراط وتفریط اور بدعت کے بجائے اعتدال اور سنت کا اہتمام ملتا ہے، مولانا نے اپنی زندگی میں اسی کو اپنائے رکھا اور اس کے فائدے ہر جگہ محسوس ہوئے۔
(۳) زمانہ کے تمام تغیرات اور مسائل ومشاکل سے باخبری اور تجزیہ
مولانا اپنے زمانہ کے مسائل وانقلابات اور ان کے اثرات ونتائج سے کبھی بے خبر نہ